جواب:
یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ کچھ لوگ قسطوں پر مکان لینے اور قسطوں پر قرض لینے کو ایک ہی طرح کا معاملہ خیال کرتے ہیں، جبکہ یہ دونوں معاملات الگ الگ ہیں اور ان کے احکام بھی جدا ہیں۔ وضاحت درج ذیل ہے:
قسطوں پر مکان لینے کا جائز طریقہ یہ ہے کہ ایک فرد، ادارہ یا فرم گاہک کو مکان فروخت کرتے وقت یہ طے کر لے کہ مکان کی کُل قابلِ ادا رقم کتنی ہوگی؟ کتنے عرصہ، کتنی اقساط میں ادا کی جائے گی؟ طے شدہ رقم خواہ مکان کی موجودہ قیمت سے زیادہ ہو۔ مثلاً ایک مکان کی موجودہ قیمت اٹھارہ (18) لاکھ روپے ہے۔ کوئی ادارہ یا بینک گاہک کے ساتھ طے کر لے کہ آپ نے بیس (20) لاکھ روپے عرصہ بیس (20) سال میں ادا کرنے ہیں اور سالانہ قسط ایک لاکھ روپے ہوگی تو یہ جائز ہے۔
مذکورہ بالا طریقہ میں شے کی کل قیمت اور مدتِ ادائیگی دنوں پہلے سے طے کی گئی ہیں۔ تاکہ فریقین بعد میں کمی پیشی نہ کر سکیں۔ اشیاء کی خرید و فروخت کا یہ طریقہ جائز ہے۔ اس میں بائِع (فروخت کنندہ) اور مُشْتَرِی (خریدار) دونوں کے لیے سہولت موجود ہے۔ کُل قیمت طے ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ نہیں ہوسکتا۔
قسطوں پر قرض لینے کی دو صورتیں ہیں:
پانچ لاکھ قرض لے کر پندرہ لاکھ قسطوں میں لوٹانا صریحاً سود اور حرام ہے۔ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ سود کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: سود کی جامع تعریف کیا ہے؟
اسلام میں سودی قرض لینے اور دینے کی حرمت و ممانعت بالکل واضح ہے اس لیے سودی لین دین، خواہ کسی بھی غرض سے ہو، جائز نہیں۔ مکان خریدنے کے لیے آپ نے جو قرض لیا اور اس پر سود دیا، اس کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور جو قرض یا سود باقی رہ گیا ہے اس سے کسی بھی طرح جان چھڑا لیں۔ جو سود ادا کردیا اس کا کفارہ یہی ہے کہ آئندہ سودی لین دین جیسے قبیح گناہ سے پرہیز کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔