سوال نمبر:3503
السلام علیکم جناب عالی! میرے درج ذیل سوالات ہیں براہِ کرم راہنمائی فرما دیں:
- اگر کوئی شخص ظہر کی جماعت میں مسبوق ہو گیا اور آخری رکعت میں نماز
میں شامل ہوا، تو وہ بقیہ نماز کس طرح ادا کرے گا؟ سلام کے بعد دو رکعت پر قعدہ
اولیٰ کرے گا یا پہلی رکعت پر، پھر تیسری پر؟
- اگر کوئی شخص قبروں کی زیارت کر تاہے، صاحبِ قبر کو حاجت روا سمجھتا ہے، صاحب
قبر سے دعا کرتا ہے کیا اس کا ایمان سلامت ہے؟
- عام طور سے جلسے جلوس میں ایک واقعہ شد و مد سے بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ عبدالقادر
جیلانی کا دھوبی قبر میں منکر نکیر کے سوال کے جواب میں یہ کہتا رہا کہ وہ شیخ
عبدالقادر کا دھوبی ہے اورشیخ عبدالقادر نے آکر منکر نکیر کو بتایا کہ وہ انکا
غلام ہے تو اس سے سوال و جواب نہیں کیا گیا۔ اس واقعے کی صداقت پر قیل و قال کرنا کیسا ہے؟ اس کا درست ماننا کیساہے؟
شکریہ۔ جزاک اللہ
- سائل: عرفان نوریمقام: دہلی
- تاریخ اشاعت: 13 فروری 2015ء
جواب:
آپ کے سوالات بالترتیب درج ذیل ہیں:
- اگر کوئی شخص نمازِ باجماعت کی چوتھی رکعت میں رکوع سے پہلے شامل ہوا تو اس
نے ایک رکعت جماعت کے ساتھ پالی، اب اس کی تین رکعات باقی ہیں۔ امام کے سلام پھیرنے
کے بعد وہ کھڑا ہوکر ثناء سے شروع کرے گا اور رکعت مکمل کرکے قعد اولیٰ کرے گا،
اب اس کی دو رکعت مکمل ہوجائیں گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ جماعت کی چوتھی رکعت میں رکوع کے بعد شامل ہوا تو پھر
وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر دو رکعات مکمل کرکے قعد اولیٰ کرے گا۔ پھر
باقی دورکعات کے بعد قعدہ اخٰرہ کرے گا۔
- قبور اور مزارات کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ
ہے۔ آئمۂِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ آئمہ
کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جمیع مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی
اجازت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول مبارک بھی تھا
کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، انہیں سلام
کہتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے۔
صاحبِ قبر کا وسیلہ پیش کرنا اور مجازاً صاحبِ قبر سے مانگنا جائز ہے۔ کوئی بھی
کلمہ گو صاحبِ قبر کو حقیقی مالک نہیں سمجھتا بلکہ مجازی طور پر اس سے مانگتا ہے۔ جیسے
اصلاً اولاد دینے والی ذات اللہ پاک کی ہے، مگر قرآنِ مجید میں مجازاً اس کی نسبت سیدنا
جبریل علیہ السلام کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا
زَكِيًّا۔
’’(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا
ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں‘‘۔
مریم، 19: 19
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں بیٹا دینے کی نسبت سیدنا جبریل علیہ السلام کی طرف
کی گئی ہے، حالانکہ بیٹا دینے والی ذات اللہ پاک کی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جب مانگنے
کی نسبت صلحاء، متقین اور اولیاء کی طرف کی جائے تو یہ مجازی نسبت ہوگی، حقیقی نہیں۔اس
کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
زیارات قبور
عقیدہ توسل
- یہ واقعہ اکابر دیوبند اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے۔ ظنی طور پر درست ہونے
کے امکانات ہیں، مگر یقینی اور قطعی نہیں ہے۔ اگر کوئی اس واقعہ کو درست مانتا
ہے تو بھی ٹھیک اور اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہے۔ کیونکہ یہ کوئی
نصِ قطعی نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔