معلمات اور طالبات کے لیےایّام مخصوصہ کے دوران قرآنِ پاک پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3459
خواتین ایّام مخصوصہ (menses) کے دوران زبانی قرآن پاک پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو معلمہ اور حفظ کرنے والی لڑکیاں ان ایام میں کیا کریں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کالج اور یونیورسٹی میں لیکچر سن سکتی ہیں یا نہیں؟ اور مقررہ شدہ تاریخوں کے مطابق پیپرز دئیے جائیں یا چھوڑ دیں؟ وضاحت درکار ہے

  • سائل: شفن افشیںمقام: کوٹ مومن، سرگودھا
  • تاریخ اشاعت: 12 جنوری 2015ء

زمرہ: حیض  |  نفاس

جواب:

حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کو براہ راست چھونا ، زبانی یا دیکھ کر پڑھنا حرام ہے، اس سے متعلق اٹھنے والے چند اہم سولات کے جوابات درج ذیل ہیں:

حدیث پاک میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ قَالَ لَا تَقْرَاَ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں۔

ترمذي، السنن، 1: 236، رقم: 131، دار احیاء التراث العربي، بیروت

امام الفقہ علامہ محمد بن علی بن محمد علاالدین حصنی دمشقی المعروف حصفکی اپنی کتاب الدر المختار شرح تنویر الابصار میں لکھتے ہیں:

فيها حيض يمنع صلاة و صوما و تقضيه و دخول مسجد و الطواف و قربان ما تحت اِزار و قرأة قرآن و مسه الا بغلافه و کذا ولا بأس بقرأة أدعية و مسها و حملها و ذکر الله تعالٰی، و تسبيح و أکل و شرب بعد مضمضة ، و غسل يد ولا يکره مس قرآن بکم و يحل و طؤها اِذا انقطع حيضها لأکثره.

مدت حیض میں دونوں خونوں کے درمیان جو پاکی واقع ہو وہ حیض ہی ہے، جو نماز و روزہ کے مانع ہے۔ البتہ روزوں کی قضاء کی جائےگی۔ مسجد میں داخل ہونے، طواف کعبہ اور قربت، تلاوتِ قرآن اور بغیر غلاف قرآن چھونے کے مانع ہے۔ دعائیں پڑھنے، اُنہیں چھونے اور ان کو اٹھانے، اللہ کا ذکر کرنے، تسبیح پڑھنے، کلی کرنے، ہاتھ دھونے کے بعد کھانے پینے سے ممانعت نہیں۔ آستین کے ساتھ قرآن چھونا منع نہیں۔ عورت کے حیض کی زیادہ مدت گذرنے پر اس کی قربت خون بند ہونے کے بعد مکروہ نہیں۔

حصفکي، الدرالمختار، 1: 290تا 294، دار الفکر، بيروت

خاتمۃ المحققین محمد امین عابدین بن عمر عابدین المعروف علامہ شامی کا مؤقف ہے:

أی و لو دون آية من المرکبات لا المفردات ، لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه کلمة کلمة کما قدمناه ، کالقرآن التورة و الانجيل و الزبور کما قدمه المصنف فاو قرأت الفاتحة علی وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التی فيها الدعاء و لم ترد القرأة لابأ س به کما قدمنا عن العيون لأبی الليث و أن مفهومه أن ماليس فيه معنی الدعاء کسورة أبی لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية أي القرآن و لو في لوح أو درهم أو حائط ، لکن لا يمنع اِلا من مس المکتوب ، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد و موضع البياض منه۔و قال بعضهم:يجوز، و هذا أقرب اِلی القياس ، و المنع أقرب اِلی التعظيم کما في البحر:أي و الصحيح المنع کما نذکره ، ومثل القرآن سائر الکتب السماوية کما قدمناه عن القهستاني و غيره و في التفسير و الکتب الشرعية خلاف مر أي کالجراب و الخريطة دون المتصل کالجلد المشرز هو الصحيح ، و عليه الفتوی.

حیض و نفاس والی اور جُنبی کو قرآن پڑھنے سے منع کیا جائے گا، اگرچہ آیت سے کم ہو۔ مفردات (ہجے) پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا، اس لیے حیض (و نفاس) والی استانی کے لیے ایک ایک لفظ کر کے تعلیم دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، زبور (کے پڑھنے) سے (بھی منع کیا جائے گا) جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ سو اگر کسی نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھی یا قرآن کی دیگر آیاتِ دعائیہ (پڑھیں) اور ارادہ قرات کا نہ تھا تو اس میں حرج نہیں، جیسا کہ ابو اللیث سمر قندی کی کتاب العیون کے حوالہ سے ہم نے بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت میں دعاء کے معنٰی نہ پائے جائیں اُس میں غیر قرآن کا ارادہ و قصد مؤثر نہیں مثلاً سورہ لہب، (اس کو نہیں پڑھا جائےگا) اگرچہ تختی، درہم (سکہ) یا دیوار پر ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں ممانعت صرف تحریر کو ہاتھ لگانے سے ہے۔ مصحف ، اس کی جلد اور سفید خالی جگہ کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ بعض (علماء) نے کہا ہے کہ خالی جگہ کو ہاتھ لگانا جائز ہے، یہ (جواز اگرچہ) قیاس و عقل کے قریب ہے مگر (خالی جگہ کو بھی ہاتھ لگانے کی) ممانعت تعظیم کے قریب تر ہے جیسا کہ بحرالرائق میں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ہاتھ لگانے سے منع کیا جائے گا جیسا کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم کی طرح ہی باقی آسمانی کتابوں کا بھی حکم ہے جیسا ہم نے ’’قُہستانی‘‘ وغیرہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کتب تفسیر و کتب شرع کو چھونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ غلاف، تھیلہ اور ٹاکی جو مصحف سے متصل نہیں مثلاً اکھڑی ہوئی جلد، اس کا حکم یہی ہے جو مذکور ہوا اور اسی پر فتویٰ ہے۔

ابن عابدين شامي، ردالحتار، 1: 293، دار الفکر للطباعة والنشر، بيروت

امام احمدرضاخان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ وتلمیذِ خاص علامہ امجدعلی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:

معلمہ کو حیض یا نفاس ہوا تو ایک ایک کلمہ سانس توڑ توڑ کر پڑھائے اور ہجے کرانے میں کوئی حرج نہیں۔

علامه محمد امجد علی اعظمی حنفی قادری، بهار شريعت، 2: ۷3، شيخ غلام علي سنز، لاهور

خلاصہ:

  1. مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا حائضہ قرآن پاک کی تلاوت نہیں کر سکتی۔ اگر معلمہ ہو تو ہجے (spelling) کروا سکتی ہے۔ مثلاً عَلَّمَ الْقُرْاٰن دو الفاظ ہیں، عَلَّمَ کو الگ ادا کرے گی اور الْقُرْاٰن کو الگ۔ ملاکر نہیں پڑھ سکتی۔
  2. لڑکیوں کو حفظ کروانے کی ضرورت نہیں ہے اس کی بجائے ان کے لیے ترجمہ تفسیر اور دیگر دینی معاملات کی تعلیم ضروری ہے جو ان کی عملی زندگی میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
  3. حائضہ کلاس میں بیٹھ کر لیکچر لے سکتی ہے، کیونکہ سننے اور الفاظ کو تصور میں لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  4. آج کل بورڈز (Boards) اور جامعات (Universities) کی مقرر کردہ تاریخ (Sheet Date) کے مطابق امتحانات دینے والی لڑکیاں اسلامیات اور دیگر ایسے مضامین کے پیپر دے سکتی ہیں، جن میں قرآنی آیات لکھنی ہوتی ہیں۔ حائضہ عورت ایسے کپڑے یا کسی اور چیز سے قرآن پاک کو چھو سکتی ہے جو اس سے متصل نہ ہو۔ لہٰذا پیپرز میں آیات لکھتے وقت قلم درمیان میں حائل ہوتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری