جواب:
مسح کا لغوی معنی ’کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا‘ ہے اور شریعت کی اصطلاح میں مسح سے مراد ’تَر ہاتھ کا کسی عضو یا موزوں پر پھیرنا‘ ہے۔
موزوں پر مسح کرنا جائز اَمر ہے اور شریعتِ محمدی میں اس کی اجازت دی گئی ہے کہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں۔ یہ حکم دراصل ایک رخصت ہے جو شارع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکلف کو عطا کر رکھی ہے۔
موزوں پر مسح اُس وقت واجب ہوجاتا ہے جب موزے اتارنے اور پاؤں دھونے میں نماز کے قضاء ہونے کا اندیشہ ہو۔ نیز اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے پاؤں دھوئے جا سکیں تو واجب ہے کہ موزوں پر مسح کیا جائے۔ ان صورتوں کے علاوہ موزوں پر مسح کرنا محض رخصت یا اَمرِ جائز ہے مثلاً جسم کے کسی بھی عضو پر چوٹ لگی ہو، زخم پر پٹی بندھی ہو یا مرہم لگی ہو جسے پانی لگنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کا مسح کر لینا جائز ہے۔بہرحال پاؤں دھونا مسح کرنے سے اَفضل ہے۔
موزوں پر مسح ان صورتوں میں فرض ہو جاتا ہے، مثلاً: وقوفِ عرفہ یعنی حج کے موقع پر قلتِ وقت کے باعث عرفات میں ٹھہرنے کا فریضہ ادا نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو لازم ہے کہ موزہ نہ اتارا جائے بلکہ اسی پر مسح کیا جائے۔
موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پاؤں کا مسح دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے اور بائیں پاؤں کا مسح بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے کیا جائے گا، انگلیوں کو پاؤں کی پشت سے شروع کر کے پنڈلی تک کھینچا جائے گا۔ مسح کرتے وقت انگلیوں کا تر ہونا ضروری ہے۔
موزوں پر مسح کی درج ذیل شرائط ہیں:
چمڑے کے ہوں یا کم اَز کم تلا چمڑے کا ہو باقی حصہ کسی اور موٹی چیز کا ہو۔
موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں۔
پاؤں سے چپٹے ہوئے ہوں کہ انہیں پہن کر آسانی سے چل پھر سکے۔
وضو کر کے پہنا ہو۔
پہننے سے پہلے جنبی ہو نہ پہننے کے بعد جنبی ہوا ہو۔
مقررہ مدت کے اندر پہنے جائیں۔
کوئی موزہ پاؤں کی تین انگلیوں کے برابر پھٹا ہوا نہ ہو۔
موزوں پر مسح کی مدت مقیم شخص (جو مسافر نہ ہو) کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے جبکہ مسافر کے لیے مدت تین دن اور تین راتیں ہے۔ حضرت شریح بن ہانی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کرنے کی مدت پوچھی تو آپ نے فرمایا: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرو کیونکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اکثر سفر میں رہا کرتے تھے۔ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔
مسلم، الصحيح، 1: 232، رقم: 276، دار احیاء التراث العربی بیروت
یہ حدیث مبارکہ جمہور فقہاء کے مذہب پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ موزوں پر مسح کی درج بالا مدت متعین ہے۔
وہ چیزیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے انہی سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
مدتِ مسح پوری ہو جانے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
اگر ایک موزہ اتار دیا تو مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
کسی طرح موزہ کے اندر پانی داخل ہو گیا مثلاً وہ آدمی پانی میں داخل ہوا اور اس کا نصف سے زیادہ پاؤں دھل گیا تو مسح ٹوٹ جائے گا۔
مندرجہ ذیل چیزوں پر مسح جائز نہیں:
جرابوں پر۔
ہاتھ پر پہنے ہوئے دستانوں پر۔
ٹوپی پر۔
سر پر بندھے ہوئے مفلر یا عمامے پر۔
دوپٹے یا برقعے پر۔
سرپر مہندی یا خضاب کی تہہ جمی ہو۔ لیکن اگر سر پر خضاب یا مہندی کی تہہ نہ جمی ہو بلکہ بالوں کو صرف رنگ لگا ہو تو مسح ہو جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔