جواب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَهوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوة طَیِّبَة ج وَلَنَجْزِیَنَّهمْ اَجْرَهمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔
النحل، 16: 97
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ یہاں فَلَنُحْیِیَنَّہ پر ’’فا‘‘ داخل ہے جو تعقیب مع الوصل کا تقاضا کرتی ہے (یعنی وہ پہلی چیز کے فوراً بعد دوسری چیز کا پایا جانا ہے) یہاں ایمان اور عمل صالح کا بیان کر کے فرمایا کہ ہم ان کو فوراً پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے فوراً بعد حیات برزخی ہوگی نہ کہ قیامت کے روز کی زندگی۔ اس آیہ کریمہ میں کلام کو لام تاکید اور نون تاکید بلکہ نون ثقیلہ سے موکد لایا گیا ہے، کہ ہم یقینا اور ضرور بالضرور انہیں پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔
اور حدیث پاک جو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اﷲ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَة مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّة أَوْ حُفْرَة مِنْ حُفَرِ النَّارِ۔
رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
ترمذي، السنن، 4: 639، رقم: 2460، دار احیاء التراث العربي، بیروت
اگر نیک، صالح اور اولیاء اﷲ کو قبر میں باری تعالیٰ پاکیزہ زندگی عطا فرماتا ہے، تو ان کی قبریں ہی جنت کے باغوں میں سے باغ ہے۔ اگر قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو تو اس کے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ہر نیک، صالح اور اﷲ کے دوست کی قبر کا دروازہ بہشتی دروازہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔