کیا لڑکی عزت بچانے کے لیے خودکشی کر سکتی ہے؟


سوال نمبر:3335
السلام علیکم! کیا لڑکی اپنی عزت بچانے کے لیے خودکشی کر سکتی ہے؟

  • سائل: ردا خانمقام: میرپور
  • تاریخ اشاعت: 09 دسمبر 2014ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل

جواب:

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے اور اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشا ربانی ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔

البقرة، 2: 195

امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:

وقيل: أراد به قتل المسلم نفسه.

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔

بغوی، معالم التنزيل، 1: 418

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ

اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو

النساء، 4: 29

امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.

{اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو} یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔

رازی، التفسير الکبير، 10: 57

درج بالا آیات اور ان کی تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔ اس لیے اگر کسی لڑکی پر خدا نخواستہ حملہ ہو اور اسے عزت کے لٹنے کا ڈر ہو تو لڑکی اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرے، نہ کہ اپنی جان لے۔ کیوں کہ دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے، جس پر حدیثِ مبارکہ گواہ ہے۔ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اﷲ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

إِلْتَقَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُشْرِکُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِکِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا، فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اﷲِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ، مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالُوا: أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ، وَأَبْطَأَ، کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.

ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4: 1541، رقم: 3970
  2. مسلم، الصحيح،کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 106، رقم: 112

درج بالا حدیث میں آقا علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنا جنتیوں والا، اور مشکلات میں خود کشی کر لینا جہنمیوں کا کام ہے۔ اگر مذکورہ لڑکی یا کوئی بھی فرد اپنی عزت، حرمت اور نظریات کے لیے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:

عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِه فَهوَ شَهیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهلِه أَوْ دُونَ دَمِه أَوْ دُونَ دِینِه فَهوَ شَهیدٌ۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔ جو اپنی بیوی، اپنے خون اور اپنے دین کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔

 أحمد بن حنبل، المسند، 1: 190، رقم: 1652، مؤسسة قرطبة مصر

اگر کوئی فرد اپنے اہلِ خانہ، اپنی جان اور دین کے تحفظ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو وہ شہید کہلائے گا، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ عورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مزاحمت میں ماری جائے، تو اس کو بھی مرتبہ شہادت نصیب ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی