کیا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:3276
السلام علیکم! کیا سٹاک ایکسچینج میں کام کرنا جائز ہے؟

  • سائل: عبدالقيوممقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 01 دسمبر 2014ء

زمرہ: سٹاک ایکسچینج

جواب:

سٹاک ایکسچینج کا کاروبار بنیادی طور پر جائز ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تین طرح سے نفع ملتا ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے:

  1. پہلی صورت یہ ہے کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے۔ یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر وہ اپنے نفع میں حصہ داروں کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پہلی صورت میں نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین نہیں ہوتی ہے۔ سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔
  2. دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہی حصص بیچ کر نفع کمالیا، تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بعینہ تجارت کی ہی شکل ہے۔ یہی دو صورتیں جائز ہیں۔
  3. تیسری شکل جو آج کل عام اور تمام امراض کی جڑ ہے، وہ سٹے بازی ہے۔ اس میں اصل لین دین کی بجائے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں، اور دن بھر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے۔ یہی صورت چھوٹے سرمایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں سارا نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے  صرف اسی بینک یا ادارہ کے حصص خریدے جائیں جو اسلامی اصولوں پر کاروبار کرتا ہو۔ اس صورت میں نفع و نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی یا بینک سودی کاروبار کرتا ہے، تو اس میں سرمایہ کاری اور اس پر متعین منافع حاصل کرنا، سود کھانے کے مترادف ہے۔ جو کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری