کیا گناہ کبیرہ توبہ کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں؟


سوال نمبر:3108
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا گناہ کبیرہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرنے سے قبول ہو جاتی ہے؟

  • سائل: حشمت علی غلاممقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2014ء

زمرہ: ایمانیات

جواب:

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشادات باری تعالی ہیں:

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًاo

اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھاo

الفرقان، 25 : 71

إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ.

بیشک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

البقرۃ، 2 : 222

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا.

اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا۔

النساء، 4 : 110

فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ.

سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔

ھود، 11 : 61

مذکورہ بالا کے علاوہ بہت سے مقامات ہیں، اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف رغبت دلائی ہے اور توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن توبہ سچے دل سے ہونی چاہیے اور پکی ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ بندہ پھر اسی گندگی میں نہ گر جائے جس سے اٹھ کر اس نے صفائی کی تھی۔

اسی حوالہ سے چند احادیث بھی درج ذیل ہیں:

عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُودٍ حَدِیثَیْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْهِ وَإِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَکَذَا قَالَ أَبُو شِهَابٍ بِیَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ ثُمَّ قَالَ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وَبِهِ مَهْلَکَةٌ وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَیْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَوَضَعَ رَهْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةً فَاسْتَیْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ حَتَّی إِذَا اشْتَدَّ عَلَیْهِ الْحَرُّ وَالْعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اﷲُ قَالَ أَرْجِعُ إِلَی مَکَانِي فَرَجَعَ فَنَامَ نَوْمَةً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَجَرِیرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ سَمِعْتُ الْحَارِثَ وَقَالَ شُعْبَةُ وَأَبُو مُسْلِمٍ اسْمُهُ عُبَیْدُ اﷲِ کُوفِيٌّ قَائِدُ الْأَعْمَشِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِیمَ التَّیْمِيِّ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ وَقَالَ أَبُو مُعَاوِیَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عُمَارَةَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اﷲِ وَعَنْ إِبْرَاهِیمَ التَّیْمِيِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ.

’’حارث بن سوید کا بیان ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں، ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی اور دوسرا اُن کا اپنا قول ہے۔ اپنا قول یہ بیان فرمایا کہ مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی آدمی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور وہ ڈرے کہ کہیں یہ اوپر نہ آ گرے جبکہ فاسق و فاجر آدمی اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے ناک کے اوپر سے مکھی گزرتی ہوئی چلی گئی اور فرمایا کہ اس طرح ابو شہاب نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ناک کے اوپر سے گزرنا بتایا۔ پھر حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی پر خطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ہوں۔ چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سو جاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہوتی ہے پھر گرمی اور پیاس کی شدت اُسے تڑپاتی ہے یا جو اللہ نے چاہا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ واپس لوٹتا اور سو جاتا ہے۔ جب (بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو اس کی سواری پاس ہوتی ہے۔ اسی طرح ابو عوانہ اور جریر نے اعمش سے روایت کی۔ شعبہ، ابو مسلم، اعمش، ابراہیم، تیمی نے حارث بن سوید سے روایت کی۔ ابو معاویہ، اعمش، عمارہ، اسود نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے اس کو روایت کیا۔ ابراہیم تیمی، حارث بن سوید نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت کی‘‘۔

بخاري، الصحیح، 5 : 2324، رقم : 5949، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اﷲُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلَی بَعِیرِهِ وَقَدْ أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہونے کے بعد دوبارہ اُسے مل جائے‘‘۔

بخاري، الصحیح، 5 : 2325، رقم : 5950

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ قَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ حَیْثُ یَذْکُرُنِي وَاﷲِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِکُمْ یَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ. باعًا. وَاِذَا أَقْبَلَ اِلَیِّ یَمْشِي، أَقْبَلْتَ اِلَیْهِ أُهَدْوِلُ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جہاں وہ ذکر کرتا ہے میں اسی کے ساتھ ہوتا ہوں اور بخدا اللہ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کی جنگل میں گم شدہ سواری مل جائے اور جو شخص بقدر ایک بالشت میرا قرب حاصل کرتا ہے میں بقدر ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو بقدر ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں بقدر چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور جو شخص میرے پاس چل کر آتا ہے میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں‘‘۔

مسلم، الصحیح، 4 : 2102، رقم : 2675، درا احیاء التراث العربي بیروت

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِکُمْ مِنْهُ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کے ملنے سے خوش ہو‘‘۔

ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4247، دار الفکر بیروت

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَوْ أَخْطَأْتُمْ حَتَّی تَبْلُغَ خَطَایَاکُمْ السَّمَاء ثُمَّ تُبْتُمْ لَتَابَ عَلَیْکُمْ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر خدا سے توبہ کرو تو خدا تمہاری توبہ قبول فرمائے گا‘‘۔

ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4248

توبہ ہے کیا؟ اس کے لیے درج ذیل حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَی عَبْدِ اﷲِ فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم النَّدَمُ تَوْبَةٌ فَقَالَ لَهُ أَبِي أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُولُ النَّدَمُ تَوْبَةٌ قَالَ نَعَمْ.

’’ابن معقل کہتے ہیں میں ایک دن اپنے والد کے ساتھ عبد اللہ کی خدمت میں گیا وہ فرما رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا شرمندگی اور پشیمانی کا نام توبہ ہے۔ معقل نے عرض کیا کیا واقعی آپ نے یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں‘‘۔

ابن ماجہ، السنن، 2 : 1420، رقم : 4252

معلوم ہوا بندہ اپنے گناہوں سے نادم وپشیمان ہو کر سچے دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالی کو خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی معاف فرماتا ہے، لہذا گنہگار کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سچے دل سے پچھلے گناہوں پر نادم ہو کر آئندہ کے لیے پکی توبہ کرنی چاہیے، اللہ تعالی معاف فرمائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری