جواب:
ثبوت زنا کے لیے چار گواہوں کا نصاب قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہمیں آداب بارگاہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے، اللہ تعالی خالق ومالک ہے، حکم وبادشاہ ہے، اپنے کسی قول وفعل میں جوابدہ نہیں، جو چاہے کرے۔ اس سے پوچھنے کا کسی کو اختیار نہیں کہ یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا؟
ہاں اس حکم ربی کی حکمت جو ہماری ناقص عقل میں آ سکی، عرض کیے دیتے ہیں۔ چونکہ اس جرم کے ثبوت سے دونوں مجرموں کی سخت تذلیل ہوتی ہے اور پھر ان کے واسطہ سے دو خاندانوں اور نہ جانے کتنے انسانوں کی تذلیل ہوتی ہے۔ لہذا اس کے ثبوت کے لیے عام نصاب شہادت کافی نہیں بلکہ اس سے ڈبل نصاب کی ضرورت تھی۔
اگر غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور شادی شدہ ہیں تو سنگسار جیسی عبرت ناک حدیں جاری ہونا ہیں۔ لہذا ثبوت جرم بھی قطعی ہونا چاہیے، صرف ڈی-این-اے ٹیسٹ پر حد نہیں لگ سکتی۔ اس لیے کہ اولا میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے میں رشوت، دھن، دھونس، دھاندلی اور غلط کارکردگی کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے دیگر کیسیز میں اور اس میں بے ایمانی کے لیے اتنے ہی مواقع ہیں جتنے اور معاملات میں۔ اسی طرح تمام دار ومدار میڈیکل رپورٹ پر نہیں رکھا جا سکتا، میڈیکل رپورٹ سے قربت ثابت ہو سکتی ہے۔ شادی شدہ ہونے کی صورت میں یہ ثبوت قربت حلال کا بھی ہو سکتا ہے اور قربت حرام کا بھی۔ یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ قربت حلال ہوئی یا حرام؟ یہ ثبوت یا اقرار سے ملے گا یا شہادت سے، صرف میڈیکل رپورٹ کافی نہیں۔ میڈیکل رپورٹ سے بے گناہ، گناہگار اور مجرم بے گناہ ثابت ہو سکتا ہے، جو ظلم ہے۔ پس گواہی یا اقرار یا حمل کے بغیر یہ جرم ثابت نہیں ہوتا۔ جب جرم ثابت نہ ہوا تو صرف میڈیکل رپورٹ پر حد جاری نہیں ہو سکتی۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ عورت نے اصل مجرم کو بچانے اور بے گناہ کو پھنسانے کے لیے صرف میڈیکل رپورٹ کا سہارا لیا۔ لہذا ڈی-این-اے ٹیسٹ سے مدد تو لی جا سکتی ہے لیکن سارا انحصار اس پر نہیں کیا جا سکتا اور صرف ٹیسٹ کی بنیاد پر حد لاگو نہیں کی جا سکتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔