کیا طلاق ثلاثہ کو ایک طلاق شمار کیا جا سکتا ہے؟


سوال نمبر:3087
السلام علیکم عرض یہ ہے کہ میرا بیوی سے اکثر جھگڑا ہوتا رہتا ہے ایک روز جھگڑا بڑھ گیا اور میں نے غصے میں اپنی بیوی کو مارنا شروع کر دیا، میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری بیوی حاملہ بھی ہے وہ مجھے کہنے لگی میرے بچے کو نقصان ہو جائے گا مگر میں شدید غصے کے ٰعالم میں اسے مارتا رہا، اس پر اس نے بھی مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا، اسی دوران اس کی امی کا فون آ گیا اور وہ اپنی امی سے موبائل پر بات کرنے لگی، میں چونکہ شدید غصے میں تھا میں نے اپنی بیوی کو کہا “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“ اس پر میری بیوی یہ کہتی کمرے سے باہر چلی گئ کہ میں نے نہیں سنا تم نے کیا کہا میں نے کمرے سے باہر نکل نکلتے ہوئے پھر وہی الفاظ دہرا دیئے اور پھر میری بیوی نے یہ کہا کہ میں فون پر بات کر رہی ہوں مجھے آواز نہیں آئی، اس پر میں نے پھر وہی طلاق کے الفاظ دہرا دیئے۔ جناب عالی میں اپنی بیوی کو ڈرانے کی غرض سے ایک دفعہ کہنا چاہتا تھا چونکہ اس نے سنا نہیں یا اس کے کہنے پر کہ میں نے سنا نہیں اس لئے مزید دو دفعہ غصے میں دہرا دیئے۔ میری بیوی حاملہ ہے اور ہمارا ایک چھوٹا بچہ بھی ہے ہم اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہیں برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں۔

  • سائل: فرازمقام: پاکستان کراچی
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2014ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق مغلظہ(ثلاثہ)

جواب:

اگر طلاق دیتے وقت آپ واقعی غصہ کی ایسی کیفیت میں تھے کہ آپ کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں تھا پھر تو یہ ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر آپ ایک طلاق دینا چاہتے تھے اور آپ کو اپنے اوپر کنٹرول بھی تھا لیکن آپ نے بار بار تاکید کے لیے دہرا دیا تو پھر ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں کیونکہ حرام حلال کا مسئلہ ہے اگر غصہ بھی شدید نہیں تھا یعنی ایسا نہیں تھا کہ جس میں انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا اور الفاظ بھی آپ نے ویسے ہی دہرا دیئے تو پھر یہ تین طلاقیں بنتی ہیں، تین کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی۔

مزید مطالعہ کے لیے درج ذیل سوالات ملاحظہ کریں۔

  1. کیا انتہائی غصہ میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
  2. کس صورت میں طلاق ثلاثہ کو ایک طلاق مانا جائے گا؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی