جواب:
انشورنس اور بیمہ کے تفصیلی احکامات درج ذیل ہیں:
بیمہ کے لئے انگریزی زبان میں Insurance (انشورنس) کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور عربی زبان میں اس کو تامین کہا جاتا ہے۔ ان تینوں الفاظ یعنی بیمہ، انشورنس، تامین کے معنی ’’یقین دہانی‘‘ کے ہیں۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے ’’بیمہ فریقین کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس میں ایک فریق (بیمہ کمپنی) دوسرے فریق (بیمہ کرانے والا) کے نامعلوم نقصان کے واقع ہونے پر ایک مقررہ رقم ادا کرنے کا ذمہ لیتا ہے اور اس کے بدلے دوسرا فریق ایک مقررہ رقم اقساط (پریمیئم) کی شکل میں اس وقت تک ادا کرنے کا عہد کرتا ہے جب تک کہ وہ نامعلوم نقصان واقع نہ ہو جائے۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 14: 456 ، زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب ، لاہور
تاہم انگلستان سے متعلق قدیم ترین بحری انشورنس کی تاریخ 1547ء بتائی جاتی ہے۔
اس کی مندرجہ ذیل مشہور اقسام ہیں۔
ایک شخص اپنی زندگی کا بیمہ کرانا چاہے تو اس کا طریق کار یہ ہے کہ بیمہ کمپنی کا ڈاکٹر اس کی حیات کا اندازہ کرتا ہے کہ یہ شخص اتنی مدت مثلاً بیس سال تک طبعی طور پر زندہ رہنے کے قابل ہے۔ اس کے مطمئن ہونے کے بعد بیمہ کمپنی اور بیمہ دار کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے۔ بیمہ دار جتنی رقم کا بیمہ کرانا چاہتا ہے اسے سالانہ اقساط میں تقسیم کر کے بالاقساط بیمہ کمپنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ رقم اسے یا اس کے لواحقین کو شرائط کے تحت واپس کر دی جاتی ہیں اور اصل رقم کے ساتھ مقررہ شرح فیصد کے حساب سے کچھ مزید رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس رقم کا نام بونس (منافع) رکھا گیا ہے۔
بیمہ زندگی اصولی طور پر نہایت مفید سکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی مستقبل محفوظ کر سکتا ہے۔ بس اتنی حد تک درست ہے۔ اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عام علمائے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے حتی کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی قادری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔
امام احمد رضا خان ، احکام شریعت: 202 ، شبیر برادرز
لہٰذا ہم بھی اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
مجوزین بیمہ‘ بیمہ کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیتے ہیں۔
بیمہ اور انشورنس جان و زندگی کا ہو یا جائیداد و کاروبار کا، چونکہ براہ راست اس میں سود، جوا وغیرہ نہیں اور بیمہ ہولڈر کمپنی سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرتا جس میں کوئی غیر شرعی صورت پیدا ہو، پس ہمارے نزدیک یہ کاروبار اصلاً مفید اور شرعاً جائز ہے۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ یہ کمپنیاں پریمیئر کی رقوم کو کہاں انوسٹ کرتی ہیں؟ تو ظاہر ہے کہ یہ انوسٹمنٹ زراعت، تجارت، صنعت وغیرہ جائز منصوبوں میں شرعی اصولوں کے مطابق بھی ہو سکتی ہے اور سود، جوا اور فحاشی کے شعبوں میں بھی، جو حرام ہے۔ اب جائز و ناجائز کا فرق کرنا متعلقہ کمپنیوں پر ہے۔ بیمہ ہولڈرز براہ راست کسی ناجائز کام میں ملوث نہیں۔ اللہ تعالی سودی نظام کو کلیتہً ختم کرنے اور اسلامی نظام معاش اپنانے کی منزل ہمارے لئے آسان فرمائے پس ہماری قطعی رائے یہی ہے کہ بیمہ و انشورنس کی سکیم نہایت مفید اور شرعاً جائز ہے۔
لائف انشورنس یا زندگی کا بیمہ وغیرہ کے نام سے جتنے ادارے قائم ہیں ان کے متعلق چند گزارشات پیش ہیں۔
ہماری بینکنگ کا تقریباً تمام کاروبار سود پر چلتا ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری یا نجی کمپنیاں، ادارے یا افراد لوگوں سے سرمایہ جمع کرتے ہیں۔ ترغیب دینے کے لئے ان کو انعام، بونس اور حادثات کی صورت میں بڑی بڑی رقوم کی ادائیگی کے وعدے، لوگوں سے سرمایہ جمع کر کے یہ بڑے تاجروں یا کارخانہ داروں کو کاروبار کے لئے زیادہ شرح سود پر وہی رقم قرض دیتے ہیں۔ وہاں سے جو سود ان کو ملتا ہے اس میں سے اپنے اخراجات بھی پورے کرتے ہیں اور باقی رقم سے کھاتے داروں کو بونس وغیرہ کے نام پر رقم ادا کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام کاروبار سود کے اصول پر قائم ہے اس لئے اصلاً حرام ہے۔
کفالت عامہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے یعنی اسلامی حکومت کا فرض اولین ہے کہ اپنے باشندوں کی ضروریات زندگی، رہائش، خوراک، تعلیم، علاج، لباس وغیرہ پوری کرے خواہ روزگار مہیار کر کے خواہ ملازمت کی صورت میں خواہ وظیفہ دے کر جیسا کہ مغربی ممالک میں اور بعض سوشلسٹ ممالک میں یہ اصول مسلم ہے لیکن افسوس کہ اصول دینے والے اسلام کے نام لیوا یہ ذمہ داری پورے کرنے سے ناکام رہے ہیں اور مسلمان کہلانے والے حکمران اس اصول سے انکاری ہیں لہٰذا ہر آدمی سوچتا ہے کہ اولاً میں سود پر مبنی اس تمام نظام معیشت سے منہ موڑ لوں؟ اور اس کے نتیجے میں خود بھی تنگدست رہوں اور مرنے کے بعد پسماندگان کو بھی در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ جاؤں بصورت دیگر لائف انشورنس والوں کی بات مان لوں اور سودی نظام معیشت سے منسلک ہو کر جیسے تیسے ہو اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کر لوں۔ موت کا وقت مقرر ہے مگر ہمیں اس کا علم نہیں۔ یہی سوچ کر ہر انسان اپنے عیال کے لئے تحفظ کا فیصلہ کرتا ہے۔
اگر انشورنس یا دوسرے ادارے عوام سے لیا ہوا سرمایہ نفع و نقصان کی شراکت کے اسلامی اصولوں پر صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے شعبوں میں لگائیں تو اس سے منافع بھی سود کے مقابلہ میں زیادہ ہو اور رزق حلال بھی میسر ہو لیکن افسوس کہ سامراج کے ایجنٹ ہمارے حکمران خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھلا اعلان جنگ کر کے اس سرمایہ کوسود پر لیتے اور سود پر چلاتے ہیں اور مسلمان عوام کو حرام کھلانے پر تلے بیٹھے ہیں چونکہ انشورنس ہولڈر اپنی رقم سود پر نہیں دیتے لہذا ان کے حق میں ہر طرح سے انشورنس، بیمہ وغیرہ جائز ہے۔ رہی یہ بات کہ کمپنیاں ان رقوم کو آگے سود پر چڑھاتی ہیں،اس میں دونوں امکان ہیں اولاً یہ کہ صنعت و تجارت، زراعت و دفاع پر نفع و نقصان کی شراکت کے شرعی اصولوں پر رقوم دیں یہ بلاشبہ صحیح و درست ہے یا ضرورت مندوں کو قرض حسنہ کے طور پر دیں یہ بہت اچھی اسلامی سکیم ہے مگر کمپنیاں اس پر عمل نہیں کریں گی کہ ان کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے۔ پس وہ مضاربہ و مشارکہ کے اصولوں کے مطابق یہ نظام کامیابی سے چلا سکتی ہیں۔ پبلک کے لئے بیمہ و انشورنس بہرحال شرعاً درست ہے۔ اگر اس کے خلاف ہماری کوئی تحریر ہو تو اس کو منسوخ سمجھا جائے۔ ہم اس سے رجوع کرتے ہیں۔ دوسری صورت یہ کہ کمپنیاں ان رقوم کو زیادہ شرح سود پر بڑے تاجروں، صنعت کاروں یا زمینداروں میں تقسیم کرتی ہیں یہ بیشک حرام ہے مگر بیمہ ہولڈرز نے تو اپنی رقوم سود پر نہیں دیں پس ان کے لئے بیمہ ہر طرح سے جائز ہے۔
المختصر آپ، اپنی، گاڑی، مکان، دوکان، فصل، کاروبار وغیرہ سب کی انشورنس کروا سکتے ہیں جائز ہے۔
لائف انشورنس کے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان میں ہر عہدہ پر ملازمت کرنا جائز ہے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔