جواب:
ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی روشنی میں خاص علمی نظم سے بدعت کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں :
1۔ بدعتِ حسنہ
2۔ بدعتِ سیئہ
لفظ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو، مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا۔ اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ’’بدعتِ سیئہ‘‘ ہو گی۔
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
والتحقيق انها ان کانت مما تندرج تحت مُستحسن فی الشرع فهی حسنة وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة.
’’ثابت یہ ہوا کہ اگر بدعت شریعت میں کسی مُستحسن امر کے تحت داخل ہے تو وہ اچھی ہے اور اگر وہ شریعت کی نا پسندیدگی کے تحت آتی ہے تو وہ غیر پسندیدہ ہوگی۔‘‘
1. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
2. شوکانی، نيل الاوطار، 3 : 63
اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے :
مَنْ سَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّة حَسَنَةً، فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِيْ الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهِمْ شَيْئٌ
’’جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کرے اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔