السلام علیکم مفتی صاحب! زید نے بکر سے درج ذیل سوالات کیے:
بکر نے درج ذیل جوابات دیے:
کیا یہ جواب درست ہے؟
جواب:
آج کل شیطان اور شیاطین یعنی اس کے پیروکار مختلف محاذوں پر عقائد حقّہ اور اعمال صالحہ کو مسخ کرنے، امت میں افتراق و انتشار پھیلانے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے نت نئے فتنے پیدا کررہے ہیں۔ ان تمام فتنوں میں سے اکثر کا تعلق اہل اسلام کے قبلہ نیاز، ذات رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی محبت و عقیدت کو امتیوں کے دل و دماغ سے نکالنے سے ہے۔ کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جب تک دماغوں سے اس نکتہ نوری کو کھرچا نہ جائے، گمراہی کے اندھیرے راہ نہیں پاسکتے۔ کوئی غیرت مند مسلمان یہ جسارت کرسکتا ہے نہ کسی بدلگام کی ایسی جسارت برداشت کرسکتا ہے کہ اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسے الفاظ کہے یا لکھے جائیں جن میں گناہ کی نسبت معاذاللہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہو کہ آپ سے فلاں گناہِ صغیرہ یا کبیرہ سرزد ہوا، یا کم سے کم یہ کہ بعض ایسی باتیں معاذاللہ آپ سے سرزد ہوئیں جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ بلند کے شایان نہ تھیں وغیرہ۔
قرآن و سنت اور عقل و خرد کی رو سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ صغیرہ اور نہ کبیرہ بلکہ ’’حَسَنَاتُ الاَبْرَارِ سَیِّئَات الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘ کے قبیلہ سے بھی کبھی کوئی گناہ، خطا، برائی سرزد ہوئی ہی نہیں۔ جو اس طرح کی بات کرے اس سے بڑھ کر جھوٹا اور مفتری کوئی نہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر دور میں، ہر پہلو سے، ہر جگہ اور ہر زمان و مکان میں اخلاق حسنہ کے بلند ترین مقام پر فائز رہے اور ہیں۔ ہر امتی پر لازم ہے کہ وہ اسی عقیدہ پر کاربند رہے۔ اس کے برعکس جو ہے، وہ باطل ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ ط
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
النسآء، 4: 64
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی محض اس لئے بھیجا کہ اس کے حکم سے نبی کی اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت غیر مشروط ہے۔ قرآن کریم میں کہیں بھی کسی شرط سے اسے مشروط نہیں کیا گیا۔ اگر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کسی بھی صورت میں گناہ صغیرہ یا کبیرہ ممکن ہو تو اس کی اطاعت بھی لازمی ہوگی۔ گویا معاذاللہ، اللہ تعالیٰ لوگوں کو گناہ کی ترغیب و تاکید کررہا ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اِنَّ اﷲَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ط ۔
بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
الاعراف، 7: 28
اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
النحل، 16: 90
بلکہ برائی سکھانے کا کام شیطان کا ہے۔
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ ج۔
شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔
البقرة، 2: 268
قرآن کریم کی رو سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’مُطَاعٌ‘‘ یعنی واجب الاطاعت ہیں۔ ’’مُحِلٌّ‘‘ حلال کرنے والے ہیں۔ ’’مُحَرِّمٌ‘‘ حرام کرنے والے ہیں۔ ’’اٰمِرٌ‘‘ حکم دینے والے ہیں۔ ’’نَاہٍ‘‘ منع کرنے والے۔ ’’شَفِیْعٌ‘‘ سفارش کرنے والے ہیں۔ نور، سراج اور منیر ہیں۔ شاہد، مبشر، نذیر اور داعی کے مناصب پر فائز ہیں۔ حاکم اور متبوع ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کائنات کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ ان کی محبت، اطاعت، اتباع اور پیروی کا اللہ پاک نے قرآن کریم میں بار بار حکم دیا ہے۔ وہ صادق، امین، عادل اور منصف ہیں۔ جس ہستی میں یہ صفات حسنہ ہوں وہ گناہوں اور برائیوں سے پاک ہی ہوسکتا ہے۔ وہ ’’مُزّکی‘‘ و ’’مطہّر‘‘ ہیں۔ وہی ہستی دوسروں کو گناہوں اور جرائم سے پاک کرسکتی ہے جو خود ان سے کبھی کسی حالت میں بھی آلودہ نہ ہو۔ جو خود معاذاللہ بھولا بھٹکا ہو، جس کا اپنا دامن داغدار ہو وہ ساری دنیا کا ہادی، مزکی و مطہر کیسے ہوسکتا ہے؟
بایں ہمہ بعض کم علم نادان، مسلمان کہلانے والوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ کر اپنا نام رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے ادبوں، گستاخوں اور بدنصیبوں میں لکھوا لیا ہے کہ معاذاللہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان نبوت سے پہلے بھی اور اظہار نبوت کے بعد بھی کچھ نازیبا و ناشائستہ افعال صادر ہوئے۔ کم سے کم ایسے امور جو آپ کی شایان شان نہ تھے، معاذاللہ! میں اللہ پاک کی تائید و توفیق سے اس سوچ کا رد کروں گا اور ان شاء اللہ ثابت کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر رسول زندگی بھر گناہِ کبیرہ ہو یا صغیرہ، اخلاق سے گری ہوئی بات ہو یا شان و عظمت کے خلاف کوئی بات، ہر عیب سے قطعی اور دائمی پاک ہوتا ہے۔ وہ عزت و عظمت اور علّوِ مرتبت کے مقام اعلیٰ و ارفع سے کبھی نیچے نہیں آتا۔ جو شخص اس کے خلاف کہتا یا سوچتا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے توبہ کرنی چاہئے، معافی مانگنی چاہئے اور ایسی شیطانی سوچ سے اپنی دنیا و آخرت خراب نہیں کرنی چاہئے کہ اس مقام پر بڑے بڑوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں۔ نیکیاں برباد اور انجام عبرت ناک ہوجاتا ہے۔ اس شیطانی سوچ کے ثبوت میں جن لوگوں نے تحقیق و ریسرچ کے نام پر جوکچھ کہا اور لکھا ہے وہ جہالت و بدبختی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سب کچھ علم نہیں جہالت ہے۔تحقیق نہیں تجہیل ہے۔ سعادت نہیں شقاوت ہے۔ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہے۔
سورة فتح کی پہلی تین آیات مبارکہ جن سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا، ان کی وضاحت درج ذیل ہے:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاo لِّیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْکَ وَیَهدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo وَّ یَنْصُرَکَ اﷲُ نَصْرًا عَزِیْزًا
بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح فرما دی۔ تاکہ اﷲ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمت تم پر مکمل کردے اور تمہیں سیدھی راہ پر یونہی چلاتا رہے اور اﷲ تمہاری زبر دست مدد فرمائے۔
الفتح، 48: 1 تا 3
ماہرین لغت نے گناہ، جرم اور نافرمانی کے علاوہ بھی ذنب کے بہت سے معانی لکھے ہیں، جیساکہ:
ذنب: ذَنَبُ الدَّابَة وغیرها معرُوف وَ یُعَبَّرُ به عَنِ المُتأَخِّرِ وَالرَّذْلِ، یُقَالُ همْ أَذْنَابُ القوم وعنه اسْتُعیرَ مَذَانِبُ التِّلاع لمسایلِ مِیأهها۔
چوپائے وغیرہ کی دُم، یہ معنی مشہور ہے، ہر پچھلی اور کمزور چیز کو دم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: قوم کے پچھلے یعنی کمزور لوگ۔ اسی سے استعارہ کیا گیا ہے سیلاب کے ٹیلوں کی چوٹیاں۔
أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، 1: 181، دار المعرفة لبنان
ذَنَبُ الرَّجُلِ أتْباعُه وأذنابُ القوم أتباعُ الرُّؤساء یقال: جاء فلان بِذَنبه أي بأتباعه۔
کسی شخص کے ذنب، اس کے پیروکار۔ قوم کے اذناب، سرداروں کے پیروکار۔ کہا جاتا ہے: فلاں شخص اپنے ذنب یعنی پیروکاروں کے ہمراہ آیا۔
الأزهري، تهذیب اللغة، 14: 315، دار احیاء التراث العربي بیروت
الأذناب والأتباع جمع ذنب کأنهم في مقابل الرؤوس وهم المقدمون۔
اذناب ذنب کی جمع اور مراد پیروکار ہے۔ یہ رؤوس کے مقابل ہے۔ جیسے سر آگے اور دم پیچھے ہوتی ہے اسی طرح سردار آگے ہوتا ہے اور پیروکار پیچھے ہوتے ہیں۔
ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2: 170، المکتبة العلمیة بیروت
ذَنَبُ الرَّجُلِ، أتْبَاعِه وَ أذْنَابُ النَّاسِ وذَنَبَاتُهمْ أتْبَاعُهمْ وَسَفِلَتُهمْ دُوْنَ الرُّؤَسَاءِ ذَنَبُ کُلِّ شَيئٍ آخِرُهة وجَمْعُه ذِنَابٌ۔۔۔ عقب کل شيئ۔۔۔ ذَنَبُ الْفَرَسِ۔
کسی شخص کے ذنب، اس کے پیروکار اور لوگوں کے اذناب ان کے پیچھے چلنے والے، گھٹیا لوگ، بڑے نہیں۔۔۔ ہر چیز کا ذنب اس کا آخر اور اس کی جمع ذِناب ہے۔۔۔ ہر چیز کا پچھلا حصہ۔۔۔ جیسے گھوڑے کی دُم۔
(ذَنَبَه) ذَنْباً: أصاب ذَنَبَه وتبعه۔ فلم یغادِرْ أثْرَه۔ یقال: السحاب یَذْنِب بعضه بعضاً۔
اسکی وسعت اس کے پیچھے یعنی آخر تک پہنچ گئی۔ سو اس کا اثر نہ چھوڑا۔ کہا جاتا ہے: بادل تہہ در تہہ آخر تک پہنچ گیا۔
ابرهیم أنیس، المعجم الوسیط، 1: 316، دار احیا التراث العربي
الذنب: الاثم والجمع (ذنوب) و(أذنب) صار ذا ذنب بمعنی تحمله۔
ذنب گناہ، اس کی جمع ذنوب ہے اور اَذْنَب کا مطلب گناہگار ہوا، گناہ کا مرتکب ہوا۔
أحمد بن محمد، المصباح المنیر، 1: 210، المکتبة العلمیة بیروت
أصل ذنب البعیر حیث دق وبره ویقال لها المشاعر لأن تلک المواضع من جسده۔
اونٹ کے دم کی جڑ جہاں اس کی اون پتلی یعنی باریک ہوتی ہے، اس جگہ کو مشاعر (بالوں کی جگہیں) کہا جاتا ہے کہ یہ مقامات اس کے جسم کے حصے ہیں۔
خلیل بن فرهیدي، العین، 1: 330، دار ومکتبة الهلال
لغت کی ان عظیم المرتبت کتابوں سے ہم نے آپ کے سامنے سورۃ الفتح کی آیت نمبر دو (2) میں آنے والے کلمہ ذنب کی تحقیق پیش کر دی ہے۔ لغت کی رو سے ذَنْب یا ذَنَب کا مفہوم ہے کسی چیز کا آخری حصہ، جانور کی دم کو بھی ذنب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جسم کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ اس کی جمع اذناب یا ذِناب ہے۔ اگر اس لفظ کو ذَنْب (سکونِ نون) سے پڑھیں تو اس کی جمع ذُنوب ہے۔ اس کا مطلب الزام اور گناہ ونافرمانی بھی ہے کہ یہ اوصاف آدمی کا پیچھا کرتے ہیں اور انجام تک پہنچاتے ہیں۔
عوام اور پیروکار جو کسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں، اذْناب کہلاتے ہیں۔ یہ لفظ اعلیٰ درجہ کے اولوالعزم شرفاء پر کم اور گھٹیا ذہنیت کے عوام پر زیادہ بولا جاتا ہے۔ روزمرہ کی بول چال میں بھی یہ لفظ انہی معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور ہر زبان میں ہوتے ہیں۔ ماں گھر سے کسی کام کے لئے نکلتی ہے تو نادان، کم فہم اور چھوٹے بچے اس کے پیچھے چلے آتے ہیں، وہ ڈانٹ کر کہتی ہے تم میرے پیچھے کیا دُم لگے ہوئے ہو وغیرہ، گھر چلو، میرا پیچھا چھوڑو!
ان لغوی اور عرفی معانی کو پیش نظر رکھیں اور سورہ فتح کی کی دوسری آیت ہی نہیں بلکہ پہلی اور بعد والی آیات کو بھی سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ترجمہ صحیح تر یہی بنتا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاo لِّیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo وَّ یَنْصُرَکَ اﷲُ نَصْرًا عَزِیْزًاo
بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح فرما دی۔ تاکہ اﷲ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمت تم پر مکمل کردے اور تمہیں سیدھی راہ پر یونہی چلاتا رہے اور اﷲ تمہاری زبردست مدد فرمائے۔
الفتح، 48: 1 تا 3
’’لِّیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ‘‘ کے فرمانِ خداوندی کو دلیل بناتے ہوئے گستاخ و بے ادب لوگ گناہ و خطا کی نسبت معاذاللہ حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرتے ہیں، جبکہ حقیقت حال میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ آیئے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے مفسرین کرام کے اقوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
عظیم مفسر قرآن حضرت علامہ امام فخر الدین محمد بن عمر الرازی تفسیر الکبیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
المرادذنب المؤمنین۔
ذنب سے مراد مسلمانوں کے گناہ ہیں۔
الرازي، التفسیر الکبیر، 28: 68، دار الکتب العلمیة بیروت
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی نے ابو علی الرّوذ بارّی کا یہ قول نقل کیا ہے:
لوکان لک ذنب قدیم أو حدیث لغفرناه لک۔
اے حبیبِ مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! بالفرض آپ کا کوئی پرانا یا نیا گناہ ہوتا بھی تو ہم تمہاری خاطر اسے بھی بخش دیتے۔
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 16: 263، دار الشعب القاہرة
محمد بن جریر بن یزید بن خالد طبری ابو جعفر، روایت نقل کرتے ہیں:
عن مغیرة الشعبي قال نزلت إنا فتحنا لک فتـحا مبینا بالحدیبیة و أصاب في تلک الغزوة مالم یصبه في أصاب أن بو یع بیعة الرضوان وغفرله ماتقدم من ذنبه وماتأخر وظهرت الروم علی فارس وبلغ الهدی محله واطعموا نخل خیبر وفرح المومنون بتصدیق النبي صلیٰ الله علیه وآله وسلم وبظهور الروم علی فارس و قوله تعالی و یتم نعمته علیک بإظهار إیاک علی عدوک ورفعه ذکرک في الدنیا وغفرانه ذنوبک في الآخرة۔
بیعت رضوان نصیب ہوئی اور آپ کے ذریعے آپ کے اگلے پچھلوں کے گناہ بخشے گئے۔ ادھر رومی، ایرانیوں پر غالب آئے، ہدی کے جانور اپنے مقام مقررہ (مکہ مکرمہ) پہنچ گئے اور مسلمانوں کو خیبر کی کھجوریں کھانا نصیب ہوئیں۔ مسلمانوں کو خوشی نصیب ہوئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوئی اور رومی (عیسائی) ایرانیوں (مجوسیوں) پر غالب ہوئے اور یہ جو فرمایا تاکہ اللہ آپ پر اپنی نعمت مکمل کرے کہ اس نے آپ کی کفار کے مقابلہ میں مدد فرمائی اور دنیا میں آپ کا ذکر بلند فرمایا اور آخرت میں آپ کے ذنوب بخشے۔
طبري، جامع البیان في تفسیر القرآن، 26: 71، دار الفکر بیروت
عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی ، نقل کرتے ہیں:
قال ابن عباس والمعنی ماتقدم في الجاهلیة وماتأخر مالم تعلمه۔
مطلب یہ کہ پہلے یعنی آپ کے دورجاہلیت کے اور پچھلے گناہ بخش دے جو آپ کے علم میں نہیں۔
ابن الجوزی، زاد المسیر، 7: 423، المکتب الإسلامي بیروت
’’اس میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی تعظیم و تکریم ہے۔ آپ ہر معاملہ میں اطاعت شعار، نیکو کار اور راستی کے اس درجہ پر فائز ہیں و جسے پہلے پچھلوں میں کوئی نہ پاسکا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم علی الاطلاق انسان کامل اور دنیا و آخرت میں سب کے سردار ہیں۔ فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کے سبب بہت کامیابی ملی۔ لوگ امن میں ہوگئے، ایک دوسرے سے میل ملاپ ہوا۔ مسلمان اور کافر میں بات چیت ہوئی۔ مفید علم اورایمان کی نشرو اشاعت ہوئی‘‘۔
إسماعیل بن عمر، تفسیر ابن کثیر، 4: 185، دار الفکر بیروت
ابی محمد حسین بن مسعود البغوی، علی بن احمد الواحدی ابو الحسن، محمد بن علی محمد الشوکانی اور ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی، عطاء خراسانی کی روایت نقل کرتے ہیں:
قال عطاء الخراساني ما تقدم من ذنبک یعني ذنب أبویک آدم وحواء ببرکتک وماتأخر ذنوب أمتک بدعوتک۔
عطاء خراسانی نے کہا پہلے گناہوں سے مراد آپ کے ماں باپ آدم و حواء علیہما السلام کے گناہ ہیں جو آپ کی برکت سے بخشے گئے، اور پچھلے گناہوں سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں جو آپ کی دعا سے بخشے جائیں گے‘‘۔
علامہ شوکانی مزید فرماتے ہیں:
مجاہد نے کہا: مطلب یہ کہ اللہ پاک آپ کے نبوت سے پہلے اور بعد کے گناہ بخش دے۔ یہی قول سفیان ثوری اور ابن جریر واحدی وغیرہ کا ہے۔ عطاء نے کہا آپ کے پہلے گناہوں سے مراد آپ کے ماں باپ آدم و حواء علیہما السلام کے گناہ ہیں اور پچھلے گناہوں سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ بخشے آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام کے گناہ اور وماتاخر سے مراد بعد والے نبی اور ان کے گناہ ہیں۔ یہ سب کمزور اور بلا دلیل باتیں ہیں۔ ایک مطلب یہ لیا گیا ہے:
لو کان ذنب قدیم أو حدیث لغفرناه لک۔
کہ آپ کا اگر بالفرض کوئی قدیم و جدید گناہ ہوتا بھی تو ہم اسے بخش دیتے۔
شوکاني، فتح القدیر، 5: 45
محمد امین بن محمد مختار جکنی شنقیطی فرماتے ہیں:
قال أبو حیان هو کنایة عن عصمته صلیٰ الله علیه وآله وسلم من الذنوب وتطهیره من الأرجاس۔
علامہ ابو حیان اندلسی نے فرمایا: یہ کنایہ ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گناہوں سے پاک ہونے کا اور یہ کہ آپ ہر قسم کی گندگی سے پاک صاف ہیں۔
محمد الأمین، أضواء البیان، 8: 575، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت
عبد الرحمن بن الکمال جلال الدین سیوطی کا مؤقف درج ذیل ہے:
’’جب سورۃ فتح نازل ہوئی، جبریل علیہ السلام نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کو مبارک ہو، جب جبریل علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک باد دی تو تمام مسلمانوں نے مبارک باد دی‘‘۔
سیوطي، الدرالمنثور، 7: 512، دار الفکر بیروت
ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی نقل کرتے ہیں:
’’معاہدہ حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضي اﷲ عنہم کے ہمراہ مدینہ منورہ واپس تشریف لارہے تھے، تو ایک شخص نے کہا یہ فتح نہیں، قریش نے ہمیں بیت اللہ کی زیارت سے منع کردیا اور ہماری قربانیوں کے جانوروں کو آگے جانے سے روک دیا۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ بات پہنچی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے جو کہا یہ بہت بُری بات ہے، یہ تمام فتوحات سے بڑی فتح ہے۔ مشرک اتنی سی بات پر راضی ہوگئے کہ وہ اپنے علاقہ سے آرام کے ساتھ تمہیں ہٹادیں اور تم سے معاملہ کا فیصلہ مانگیں اور تم سے امان مانگنے کی خواہش کریں حالانکہ انہوں نے وہ کچھ دیکھا جو وہ نہ چاہتے تھے‘‘۔
زمخشري، الکشاف، 4: 335، دار احیاء التراث العربي بیروت
نصر بن محمد احمد ابو لیث سمر قندی بیان کرتے ہیں:
ما تقدم من ذنبک یعني ذنب آدم وما تأخر یعني ذنب أمتک۔
آپ کے پہلے گناہ یعنی آدم علیہ السلام کے اور پچھلے یعنی آپ کی امت کے۔
نصر بن محمد، تفسیر سمر قندي، 3: 293، دار الفکر بیروت
سلیمان بن عمر عجیلی شافعی المعروف جمل فرماتے ہیں:
معنی الغفران الاحالة بینه وبین الذنوب فلا یصدر منه ذنب لأن الغفر هو الستر والستر اما بین العبد والذنب وعقوبته فاللائق به وبسائر الأنبیاء الأوّل واللائق بالأمم الثاني۔
بخشش کا مطلب ہے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور گناہوں کے درمیان رکاوٹ ڈالنا۔ لہٰذا سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا، کیونکہ غفر کا مطلب ہے پردہ اور پردہ یا تو بندے اور گناہ کے درمیان ہوتا ہے، یا بندے اور عذاب کے درمیان۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیائے کرام کے شایانِ شان پہلا معنی ہے اور امتوں کے لائق دوسرا۔
جمل، الفتوحات الالہیة، 4: 157، دار الفکر
مولانا مودودی نے لکھا ہے:
’’کسی مقصد کے لئے ایک جماعت جو کوشش کررہی ہو اس کی خامیوں کی نشاندہی کے لئے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں، دراصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کررہی ہوتی ہے مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔
تاہم چونکہ روئے سخن رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقامِ بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں۔ اسی بناء پر جب صحابہ کرام حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے، تو عرض کرتے کہ آپ کے تو سب اگلے پچھلے قصور معاف ہوچکے ہیں پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ جواب میں فرماتے تھے: ’’افَـلَا اکُوْنُ عَبْدًا شَکُورًا؟‘‘ ’’کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
مودودي، تفهیم القرآن، 5: 44، اداره ترجمان القرآن، لاهور
مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی (صوری) خطائیں معاف فرمادے۔
تهانوي، بیان القرآن، 3: 281، قلعه شاه فیصل (قلعه گوجر سنگه) لاهور
مولانا محمد مالک کاندھلوی نے لکھا ہے:
’’تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور پیچھے رہے‘‘۔
مالک کاندهلوي، معارف القرآن، 7: 434، قرآن محل، حق سٹریٹ اردو بازار لاهور
بعض نادانوں نے کہا کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گناہوں سے مراد ایسے امور ہیں جو اپنی حیثیت میں گناہ تو نہ تھے مگر آپ کی شانِ بلند کے شایان نہ تھے۔ کوئی اور کرتا تو کوئی بات نہ تھی مگر آپ کے بلند مرتبہ کے پیش نظر ان کو گناہ کہا گیا۔ کیونکہ ’’حَسَنَاتُ الابْرَارِ سَیِّئَات الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘ ’’نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے گناہ بن جاتے ہیں‘‘۔ کسی نے کہا گناہ صغیرہ مراد ہیں ، کسی نے کہا قبل از نبوت کے گناہ مراد ہیں۔
ہمارے نزدیک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارکہ کا کوئی لمحہ ’’قبل از نبوت‘‘ نہیں۔ نبی، نبی ہوتا ہے۔ نبی کی ذات وصفِ نبوت سے کبھی خالی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عَنْ أَبِي هرَیْرَة قَالَ: قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّة قَالَ: وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کا باہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔
ہاں مگر متعدد حکمتوں کے پیش نظر کبھی اظہار نبوت پیدا ہوتے ہی کردیا جاتا ہے، جیسے آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے کئے۔ اختصار کی خاطر بطور حوالہ قرآن کریم کے درج ذیل مقامات دیکھیے:
(البقرة، 2:30 تا 38/ آل عمران، 3:33/ الأعراف،7 :11، 19، 22/ بنیٓ اسرآئِیل، 17:61)
جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اعلان فرماتے ہیں:
اِنِّیْ عَبْدُ اﷲِطاٰ تٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاo وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَاکُنْتُ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوة وَالزَّکٰوة مَا دُمْتُ حَیًّاo وَّبَرًّام بِوَالِدَاتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّاo وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّاo ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ج قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْه یَمْتَرُوْنَo
بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم فرمایا ہے۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔
مریم، 19: 30 تا 34
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
وَحَرَّمْنَا عَلَیْه الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰٓی اهلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَهٗ لَکُمْ وَهمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَo
اور ہم نے پہلے ہی سے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش کردیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں۔
القصص، 28: 12
کیا حلال ہے؟ کیا حرام ہے؟ نوپید بچہ کیا جانے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے علم دے دیا کہ اس وقت تم پر اپنی ماں کے دودھ کے سوا سب حرام ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ انبیائے بنی اسرائیل کو تو پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی الوہیت، اپنی عبودیت، کتاب اللہ کا ملنا، نبوت کے فیض سے بابرکت ہونا، نماز، زکوۃ ادا کرنے والا، اپنی والدہ کی بے گناہی کا اعلان کرنے والا اپنے جابر و بدنصیب نہ ہونے، اپنے یوم میلاد، یوم وفات اور یوم حشر درود و سلام کی برکتوں اور جشنوں و کامیابیوں کا سزاوار ہونا اور ان سب مراتب و فضائل سے آراستہ ہونا یقین سے معلوم ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیب محترم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گناہوں کا اعلان کرے اور ان کے بخشنے پر احسان جتلائے، یہ کیسے ممکن ہے؟
سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّة عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَo وَالْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَo
آپ کا رب، جو عزت کا مالک ہے اُن (باتوں) سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور (تمام) رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
الصافات، 37: 180 تا 182
ذنب کے معانی و مفاہیم اور سورۃ الفتح کی دوسری آیت مبارکہ میں اس کے استعمال پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اب ہم مغفرت کے بارے میں جانتے ہیں۔
لغت کی تمام کتب میں درج ہے کہ مغفرت کا مادہ غفر (غ،ف،ر) ہے۔
أصل الغفر الستر والتغطیة وغفر اﷲ ذنوبه أي سترها۔
غفر کا اصل (لغوی) معنی ہے پردہ ڈالنا، ڈھانپنا۔ اﷲ اس کے گناہوں کی مغفرت کرے یعنی پردہ پوشی کرے۔
غفر الغفر الباس مایصونه عن الدنس ومنه قیل اغفر ثوبک في الوعاء واصبغ ثوبک فانه أغفر للوسخ والغفران والمغفرة من اﷲ هو أن یصون العبد من أن یمسه العذاب۔
کسی شے کو ایسا لباس پہنانا جو اسے میل کچیل سے بچائے، اسی طرح کہا گیا ہے اپنا کپڑا برتن میں ڈھانپ کر رکھو اور اپنے کپڑے کو رنگ لو کہ وہ میل کو زیادہ چھپاتا ہے اللہ کی غفران ومغفرت یہ ہے کہ وہ بندے کو عذاب سے بچائے۔
أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، 1: 362
المِغْفَر: وِقایة للرَّأس وغَفِرَ الثَّوْبُ اذا ثارَ زِئْبَرُه غَفَرًا والغِفارة: المِغْفَر ومِغْفَرُ البَیْضة: رَفْرَفُها من حَلَقِ الحدید۔
مِغْفَر: سر کو (helmet کے ذریعے) بچانا۔ کپڑے پر اُبھرنے والے ریشے۔ غفر، غفار، المغفر، مغفر سر پر لوہے کا پہنا جانے والا خَود جس کی جھالر لوہے کی کڑیاں ہوتی ہیں۔
خلیل بن فراهیدي، العین، 4: 406
غَفَرَه یَغْفِرُه غَفْراً سَتَرَه وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ اصْبَغْ ثَوْبِکَ بِالسَّوَادِ فَهوَ أَغْفَرُ لِوَسخه۔ وَغَفَرَ المِتَاعَ فِي الوِعَائِ یَغْفِرُه غَفْراً وَأَغْفَرُه أَدْخَلَه وَسَتَرَه وَکَذَلِکَ غَفَرَ الشَّیْبَ بِالخِضَابِ۔
اسے چھپا لیا، اسے اچھی طرح ڈھانپ لیا۔ عرب کہتے ہیں: اپنے کپڑے کو سیاہ رنگ کر لے کہ وہ میل کو اچھی طرح چھپا لیتا ہے۔ اس نے سامان تھیلے میں ڈال لیا، چھپا لیا۔جیسے خضاب سے بالوں کی سفیدی چھپا لی۔
أصل الغفر الستر ومنه یقال الصبغ۔
غفر کا لغوی معنی ہے پردہ ڈالنا۔ رنگ کر کے کسی شے کے اصل رنگ یا میل کو چھپانا۔
أحمد بن محمد، المصباح المنیر، 2: 449
غفارة بالکسر والغفارة سحابة تراها کأنها فوق سحابة والغفارة خرقة تکون علی رأس المرأة توقي بها الخمار من الدهن وکل ثوب یغطی به فهو غفارة۔
غَِفَارَۃ (کسرہ اور فتحہ کے ساتھ) بادل دیکھو تو معلوم ہوتا ہے بادل پر بادل ہے۔ غفارہ عورت کے سر پر چھوٹا سا تکونی کپڑا ہوتا ہے جس کے ذریعے دوپٹے کو تیل سے بچایا جاتا ہے۔ جس کپڑے سے بھی سر یا جسم ڈھانپا جائے غفارہ کہلاتا ہے۔
یاقوت بن عبد اﷲ الحموي، معجم البلدان، 4: 207
مغفرت کی لغوی تحقیق کے بعد ہم احادیث مبارکہ سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا توبہ واستغفار کرنا، اس کا مقصد اور فوائد جانتے ہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن میں ستر سے زائد مرتبہ توبہ واستغفار کرنا:
عَنْ أَبِي بُرْدَة عَنِ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ وَکَانَتْ لَه صُحْبَة أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ إِنَّه لَیُغَانُ عَلَی قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اﷲَ فِي الْیَوْمِ مِائَة مَرَّة۔
حضرت اغر مزنی بیان کرتے ہیں (یہ صحابی ہیں) کہ حضور نبی اکرمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے دل پر کبھی (انوار کے غلبہ سے) ابر چھا جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
قَالَ أَبُو هرَیْرَة سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم یَقُولُ وَاﷲِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اﷲَ وَأَتُوبُ إِلَیْه فِي الْیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّة۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: خدا کی قسم، میں روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ بارگاہ خداوندی میں استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
عَنْ أَبِي هرَیْرَة قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اﷲَ وَأَتُوبُ إِلَیْه فِي الْیَوْمِ مِائَة مَرَّة۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اللہ سے دن میں سو بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
حَدَّثَنَا زِیَادٌ هوَ ابْنُ عِلَاقَة أَنَّه سَمِعَ الْمُغِیرَة یَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم حَتَّی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاه فَقِیلَ لَه غَفَرَ اﷲُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَـلَا أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا؟
حضرت مغیرہ بن شعبہ ص فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اس درجہ قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک قدموں پر ورم آجاتا۔ عرض کی گئی یارسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرمادیئے (تو اب اتنا قیام کیوں فرمایا جاتا ہے؟) فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
عَنْ أَبِي هرَیْرَة عَنْ رَسُولِ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَة مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اﷲُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ ِﷲِ إِلَّا رَفَعَه اﷲُ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ کی رضا کے لیے عاجزی کرتا ہے، اللہ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔
عَنْ أَبِي سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ اِنَّ رَسُولَ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ مَنْ تَوَاضَعَ ِﷲِ دَرَجَة رَفَعَه اﷲُ دَرَجَة حَتَّی یَجْعَلَه فِي عِلِّیِّینَ وَمَنْ تَکَبَّرَ عَلَی اﷲِ دَرَجَة وَضَعَه اﷲُ دَرَجَة حَتَّی یَجْعَلَه فِي أَسْفَلِ السَّافِلِینَ۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ایک درجہ اللہ کے لیے جھکے اللہ اُسے ایک درجہ بلندی عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کو بلند ترین درجہ ہستیوں میں شامل کر دیتا ہے اور جس نے ایک درجہ اللہ کے حضور غرور کیا اللہ اسے ایک درجہ پست کر دیتا ہے یہاں تک کہ اسے پست ترین لوگوں میں شامل کر دیتا ہے۔
قَالَ عُمَرُبْنِ الْخَطَابِ رَضِي اﷲُ عَنْه وَهوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَا أَیُّها النَّاسُ تَوَاضَعُوْا فَاِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ مَنْ تَوَاضَعَ ِﷲِ رَفَعَه اﷲُ فَهوَ فِي نَفْسِه صَغِیْرٌ وَفِي أعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ وَمَن تَکَبَّرَ وَضَعَه اﷲُ عَزَّوَجَلَّ فَهوَ فِي أعْینِ النَّاسِ صَغِیْرٌ وَفِي نَفْسِه کَبِیْرٌ وَحَتَّی لَهوَ أهوَنُ عَلَیْهمْ مِنْ کَلْبٍ أوْخِنْزِیْرٍ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا لوگو! عاجزی و انکساری اپناؤ! میں نے رسول للہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع و انکساری کی، اللہ تعالیٰ اسے سربلند فرماتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں گو چھوٹا ہو مگر لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو غرور تکبر کرے (بڑا بنتا پھرے)، اللہ تعالیٰ اسے پست کرتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا اور اپنے تئیں بڑا بنتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان کے سامنے کتے اور خنزیر سے بھی کمتر ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا روایات کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے افضل، سب سے مقرب اور عبودیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز رسول ہیں اور جتنا اعلیٰ ترین مقام، اتنی اعلیٰ ترین بندگی اورجتنی اعلیٰ ترین بندگی اتنی اعلیٰ ترین تواضع، بڑے درجہ والے غرور و تکبر سے ہمیشہ بچتے ہیں، جتنی رفعت و فضیلت اسی قدر عجزو انکساری ہوتی ہے۔
مقام غور ہے کہ فتح مبین کا مغفرت ذنب سے کیا تعلق جیسا کہ عام اردو و فارسی مترجمین نے لکھا بے شک ہم نے آپ کو روشن فتح دی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے پہلے پچھلے گناہ بخش دے۔ دو باتیں قابل غور ہیں۔
دراصل جیسے صلح حدیبیہ کا فتح مبین ہونا عام مسلمانوں کی سمجھ میں نہ آیا، اسی طرح اس کے نتیجے میں مغفرتِ ذنوب کا تعلق بھی عام ذہنوں میں آنے والا نہیں۔ ہم اللہ کی توفیق و اعانت سے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغفرت کا مطلب امت کے تمام گناہ بخش کر ان کو جزاء و سزا کے اصول سے مبرا کرنا نہیں ہے، یہ تو رہے گا البتہ امت کے گناہوں کی بنا پر، مسلمانوں پر عمومی عذاب نہ آئے گا۔ ان کی شکلیں نہ بدلیں گی، انہیں روئے زمین کی خلافت و حکمرانی سے محروم نہیں کیا جائے گا اور ان کے اپنوں کے سوا کسی غیر کو ان پر مسلط نہ کیا جائے گا۔
بقول اقبال رحمہ اللہ علیہ
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
قبر و قیامت میں بھی اللہ پاک کی رحمت و مغفرت اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و شفاعت کلمہ پڑھنے والوں پر بند نہ ہوگی۔
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَآء ُط
جسے چاہے بخش دے جسے چاہے عذاب دے۔
البقرة، 2: 284
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں کے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ بہت سے اہل ایمان کو دنیا میں مناسب عذاب دے کر معاملہ رفع دفع فرمائے گا، اور آخرت کی ذلت سے بچائے گا۔ بعض محض اپنی رحمت سے، بعض کو اپنے پیاروں کی شفاعت سے اور بعض کو توبہ سے، یہ سب عنایات ربانی ہیں اور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے۔
خلاصہ کلا م یہ کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا لمحہ لمحہ معصوم و پاکیزہ ہے۔ آپ سے کسی لمحہ نہ کوئی صغیرہ و کبیرہ گناہ سرزد ہوا، نہ اعلیٰ معیار سے گری ہوئی کوئی بات آپ نے کی جو آپ کی شان بلند کے منافی ہو۔ اس کا اعتراف تو دشمنوں نے بھی ہمیشہ کیا ہے۔ امتی اس کے خلاف سوچے اور عالم کہلانے والا ایسے توہمات کا شکار ہو، اس کی سوچ پر افسوس ہے۔ ایک طرز تواضع ہے اور بڑی ہستیوں کے شایان یہی ہے کہ اپنے دامن کو خاکساری و انکساری کے لعل و گوہر سے سجائے رکھیں۔
بقول سعدی رحمہ اللہ
تواضع زگدن فرازاں نکوست
گدا گر تواضع کند خوئے اوست
اور استاذ محمد ابراہیم ذوق دہلوی نے کہا:
جن میں ثمر لگا ہے اٹھا سکتے سر نہیں
سرکش ہیں وہ درخت کہ جن میں ثمر نہیں
درحقیقت یہ تمام دعواتِ استغفار امت مرحومہ کے لئے ہیں اور سورۃ فتح میں ذنب متقدم و ذنب متاخر سے مراد بھی اگلی پچھلی امت کے ذنوب ہیں۔ احادیث مبارکہ سے امت کی تعلیم مقصود ہے کہ جس ہستی کے صغیرہ و کبیرہ پہلے پچھلے گناہ یا خلاف اولیٰ کوئی حرکت کوئی فعل ہے ہی نہیں، وہ اپنے بارے میں کیا انکساری و عاجزی کے کلمات فرمارہے ہیں۔ دن میں ستر ستر، سو سو بار توبہ و استغفار کررہے ہیں، تو اے امت محمدیہ! تم میں سے ہر فرد اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے، تمہارے پاکبازی کے دعوے کیسے عظیم اور تمہارے شب و روز کے معمولات کیسے سقیم ہیں؟ کبھی توبہ و استغفار کا خیال تمہیں بھی آیا؟ احساس جرم کبھی ہوا؟ کبھی دل فگار اور آنکھیں اشکبار ہوئیں؟ کبھی اپنے کئے پر نادم ہوئے؟ کیسے غلام ہو؟ کیسے آقا کا نام لیتے ہو؟
سوچو اور ہزار بار سوچو! ایسے کریم و عظیم، رئوف رحیم کی دعوت پر غوروفکر کرنے میں کتنی عمر صرف کی؟ کتنے لمحے، کتنے دن، کتنے مہینے اور کتنے سال؟ ایمان لانے میں اتنی تاخیر کا کیا جواز تھا؟ تم نے دعوت کے ابتدائی دور میں انکار، استکبار اور ظلم و ستم کی انتہا کردی، اس کا آخر کیا عقلی جواز تھا؟
نماز جمعہ کے وقت، حضو رصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ جمعہ کے دوران تجارتی قافلے کی آمد پر شور شرابہ سن کر چند کے سوا سارے نمازی آپ کو منبر پر کھڑا کر کے کھسک گئے، جنگ احد، غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے کریم آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء و فرمان پر کہاں تک عمل ہوا؟ آخری بیماری کے دوران قلم و کاغذ کے مطالبہ پر کہاں تک عمل ہوا؟ اہل خانہ اور اہل بیت نے تعمیل حکم کیوں نہ کی؟ مسئلہ خلافت، جیش اسامہ، منکرین زکوٰۃ کے خلاف کاروائی، جمع قرآن، خلفائے نبوت کے دور ہمایوں میں مختلف مواقع پر مختلف طرز عمل، خانہ جنگیاں، قتل و غارت، ظلم و ستم، جمع و تدوین حدیث پر طرز عمل اور پندرہویں صدی تک، اختلاف، انتشارات، انقلابات، امت کو صدمات، حق تلفیاں، بدعات و فتن، عرب و عجم میںاپنوں سے بے وفائی، دشمنوں سے راز داری، آپس میں نفرت، غیروں سے الفت، منافقانہ روشیں، خیانت، حرام خوری، رشوت، غداری سے قوم کو دشمنوں کی غلامی میں دینا، بدمعاشی و عیاشی کی گزر بسر، فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا، ملکوں، شہروں، دیہاتوں اور بستیوں، کھیتوں، باغوں، منڈیوں، بازاروں کو تباہ و برباد کرنا، ہنستے بستے گھروں کو تاراج کرنا، معصوموں کا خون بہانا، فرقہ بندیاں، سود، جوا جیسی خرابیاں صدیوں سے ہم میں موجود ہیں۔
قرآن کریم کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد امت کے بایں ہمہ شان و احترام پاکانِ امت محفوظ و مبرا ہیں لیکن اکثریت کی عمومی کار گزاری میں بہت سی غلطیوں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے اور یہ جرائم خیر امت کے ٹائٹل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے، جس کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہے تھا کہ ہم اللہ رب العزت کے انعامات سے یکسر محروم کردیئے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں جو ارشاد فرمایا:
وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَهمْ دِیْنَهمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ همُ الْفٰـسِقُوْنَo
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی اَمانتِ اِقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لیے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے۔
النور، 24: 55
اس آیت استخلاف میں خلافت ارضی اور زمین کی حکمرانی کا جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق مسلمانوں پر فتوحات و خلافت ارضی، اور مستحکم حکمرانی کے دروازے بند کردیتا اور وہ ان فتوحات اور عزت و اقتدار سے محروم کردیئے جاتے۔ یہ کہہ کر کہ یہ عنایات ایمان و عمل صالح کے ساتھ مشروط تھیں لیکن ایسی ذلت آمیز سزانہ دی۔ کیوں لِیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ تاکہ اے محبوب تیرے سبب سے، تیری رضا کے لئے، اللہ تعالیٰ تیری امت کے پہلے پچھلے گناہوں پر پردہ ڈالے۔ نہ ان پر پہلی قوموں کی طرح عالمگیر عذاب آئے، نہ ان کی فتوحات و عزت و عظمت ختم ہو، نہ ان کو نعمت آزادی و حکمرانی سے محروم کرے، نہ ان کی شکلیں صورتیں مسخ ہوئیں۔ ابتدائی اسلامی حکومت کتنی اور کیسے نامساعد حالات میں عطا ہوئی۔ اس کی دن بدن مالی، سیاسی اور فوجی ضرورتیں کیسے پوری ہوئیں۔ یہ ہے امت کے پہلے پچھلے گناہوں کا مطلب اور یہ ہے انکی مغفرت یعنی پردہ پوشی۔ ی۔
یونہی قرآن و سنت اور اس کے متعلقہ علوم و فنون کی محیرالعقول علمی خدمات، قانون سازی، جمع و تدوین قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ علوم و فنون، جہاد و اجتہاد کے کارنامے، نیک امرائ، علماء و اولیاء کے عظیم کارنامے حق و باطل کی بے مثال علمی، فکری، سیاسی و عملی رزم آرائیاں اور تمہاری گوناں گوں کمزوریوں کے باوجود تمہیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا۔ ملک ملے، حکومتیں ملیں، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کا دنیا میں جہاں تازہ آباد ہوا، قیصر و کسریٰ کا تم کو جانشین کیا، تمہاری غربت، پسماندگی، جہالت اور خوف کو غنا، طاقت، علم اور امان کی دولت سے مالا مال کیا۔ یہ ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استغفار کا حقیقی مفہوم کہ امت کی کوتاہیوں اور جرائم کے باوجود پردہ پوشی اور سربلندی کا سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو کتنا واضح بیان کیا ہے:
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَ قَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔
الأنفال، 8: 26
آج دنیا میں کتنے مسلمان آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہیں۔ کیسے کیسے ملکوں کے مالک ہیں، کیسے کیسے وسائل سے متمتع ہیں۔ زراعت، صنعت، تجارت، تعلیم، صحت، خوراک، لباس، علمی و تربیتی مراکز، ذرائع مواصلات سے بہرہ مند، خزانہ عامرہ و افواج قاہرہ کے مالک، دنیا کے مرکز پر، دریائوں، سمندروں، بندرگاہوں پر قابض، معدنیات کے مالک اور پھر بھی اسلامی احکام و اقدار سے الرجک، لیکن ان تمام تر جرائم و نقائص کے باوجود، مالک و مولیٰ نہ ان کو کسی فرعون کی غلامی میں جکڑتا ہے، نہ عالمگیر عذاب ان پر مسلط کررہا ہے۔ انکے مذہبی پیشوا انجام سے بے خبر، عیش و عشرت اور کاہلی کے خوگر، ان کے حکمران عیاش و بدمعاش اور ظالم، ان کے سرمایہ دار و جاگیردار بخیل، عوام و خواص بے حیائی و برائی کے دلدل میں لت پت، لوٹ مار، قتل وغارتگری، پھر بھی مالک کی طرف سے رحم و کرم اور جرائم پر پردہ پوشی، یہ ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے پچھلوں کے گناہ اور یہ ہے ان کی مغفرت و پردہ پوشی۔
مغفرت کا یہ مطلب نہیں کہ قاتل، زانی، بے حیائی کرنے اور پھیلانے والے، سود کھانے کھلانے والے، راشی مرتشی، جھوٹے، دغا باز، بے ایمان، تہمت لگانے والے لوگوں کے رزق پر قبضہ کرکے انہیں بھوکے ننگے مارنے والے، ملک و ملت سے غداری کرنے والے، جھوٹے مکار، غرور تکبر کے پتلے، فتنہ پرور، ذخیرہ اندوز، جوئے باز، چور، ڈاکو، ظالم پہلے پچھلے گناہوں سے بری ہوگئے بلکہ مطلب یہ کہ دنیا میں ان سے جو جرائم سرزد ہوئے ان کے بدلے ان پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت، رزق، فتوحات، طاقت، ترقی کے دروازے بند نہیں کرے گا۔ جتنا چاہے گا عدل کرے گا اور جتنا چاہے گا کرم کرے گا۔
بقول مولانا حالی
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔