جواب:
دین اسلام میں کسی قسم کے جبر، سختی اور تنگی کا کوئی تصور نہیں کیونکہ ہر شخص کو شعور کی دولت سے نواز کر یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھتے ہوئے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کرے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘
البقره، 2 : 256
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا :
وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِo
’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئےo‘‘
البلد، 90 : 10
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی زندگی کا راستہ منتخب کرنے کے لئے واضح رہنمائی عطا کر دی ہے۔ لہٰذا کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ جبر و زیادتی سے اپنا راستہ اور طریقِ زندگی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرے، ہاں البتہ حکمت، تبلیغ اور تلقین سے کسی کو قائل کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔