جواب:
ہر نئی چیز جو پہلے نہ ہو بدعت ہی ہوتی ہے لیکن بدعت اچھی بھی ہوتی ہے بری بھی۔ اچھی بدعت اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جو چیزیں حرام یا منع ہیں ان کے بارے میں قرآن وحدیث میں ممانعت کے احکام موجود ہیں۔ جس کی بنا پر فقہاء کرام نے اصول وقواعد وضع کر لیے ہیں کہ آئندہ جو بھی نئی چیز آئے گی اس کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں کیا طریقہ اپنایا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے چند عناصر ایسے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے کے لیے شرک اور بدعت کی مشینیں چلا رکھی ہیں۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ فلاں کام سب سے پہلے کس صحابی نے کیا؟ کس نبی نے کیا؟ یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا یا نہیں کیا؟ تم کیوں کرتے ہو؟ پھر تو بہت سے کام ہیں جو اس وقت نہیں کیے جاتے تھے جو آج ہم کرتے ہیں مثلا موبائل سب سے پہلے کس صحابی نے استعمال کیا؟ کیا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے موٹر سائیکل، کار، ٹرین یا بس میں سفر کیا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ میں گن، ٹینک اور جنگی طیارے وغیرہ استعمال کیے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مسجدیں ایسی تھیں جس طرح آج ہیں؟ اس طرح بہت سے سوالات اٹھتے ہیں لیکن ان سب کا جواب یہی ہے کہ قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق ہر نئے کام کو پرکھا جائے گا اگر کوئی ممانعت نہ ہو تو ہر جدید سے جدید چیز کو قبول کیا جائے گا۔ اسی میں مسلمانوں کی بقا ہے اور یہی شرعی طریقہ ہے۔ اس لیے ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے نہ کہ چند نام نہاد ملاؤں کے بوسیدہ خیالات کے مطابق گزارنی ہے۔
لہذا کسی اچھے دن، اچھے کام یا کوئی بھی اللہ تعالی کی نعمت کے حصول پر کسی کو مبارک باد کہنا کوئی برا عمل نہیں ہے۔ مبارک باد کے معانی کوئی گالی دینا نہیں ہیں یا اس کا کوئی برا مطلب نہیں ہے۔ جب یہ عمل برا نہیں ہے تو پھر لوگوں کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جس کی طبعیت اللہ تعالی کی نعمت کو برکت نہ سمجھے وہ مبارک باد نہ دے، لیکن جو اچھا کام کرے اس کو منع نہ کیا جائے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی
کتاب
'کتاب البدعۃ'
کے مطالعہ
کے لیے یہاں کلک کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔