جواب:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا.
’’اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔
التوبه، 9 : 28
’’فَـلَا يَقْرَبُوا‘‘ نہی ہے، اِسی لیے نون اعرابی گرا ہے۔ مسجد حرام سے مراد تمام حرم ہے۔ یہی مذہب ہے عطاء کا اس قول کے مطابق مشرک کو سارے حرم میں داخل ہونا حرام ہے۔ اگر چھپ کر حدودِ حرم میں داخل ہو گیا وہیں مر گیا اور دفن ہو گیا اس کی قبر اُکھاڑ کر ہڈیاں بھی نکال لی جائیں گی۔ سو مشرک نہ حرم کو وطن بنا سکے نہ وہاں سے گزر سکے۔
اس میں علماء کے پانچ قول ہیں :
1۔ اہل مدینہ نے کہا یہ آیت عام ہے ہر مشرک اور ہر مسجد کے لیے۔
2۔ شافعی نے کہا آیت عام ہے تمام مشرکین کے بارے میں اور حکم ممانعت خاص ہے مسجد حرام کے لیے۔ کسی اور مسجد میں داخل ہونے سے مشرکین کو منع نہیں کیا جائے گا لہٰذا شوافع کے نزدیک یہودیوں اور عیسائیوں کو باقی مساجد میں داخل ہونے سے ممانعت نہیں۔
3۔ ابن عربی نے کہا اس کا دارومدار ظاہر پر ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ} اس بات پر تنبیہ ہے کہ مسجد حرام میں داخل نہ ہونے کی وجہ شرک ہے جو کہ نجاست ہے۔ لہٰذا مشرک نجس مسجد میں نہیں جا سکتا۔
اگر کہا جائے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثمامہ کو جو مشرک تھا مسجد میں قید کیا تھا، یہ بات گو صحیح ہے مگر ہمارے علماء نے اس کے چند جواب دئیے ہیں۔
یہ واقعہ نزول آیت سے پہلے کا ہے۔ لہٰذا یہ اجازت منسوخ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا مسلمان ہونا معلوم تھا اس لیے اس کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھا۔
یہ خاص ایک جاسوس کے بارے میں حکم دیا گیا باقی جو دلائل ہیں ان رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے مسجد میں اس لیے باندھا تھا کہ وہ مسلمانوں کی نماز اور خوبصورت اجتماع کو دیکھے اور مسجد میں ان کے خوبصورت بیٹھنے اور اس کے آداب کو دیکھے اور اس سے مانوس ہو کر اسلام قبول کرے اور یہی ہوا۔ يُوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس مسجد کے علاوہ قیدی رکھنے کی کوئی دوسری جگہ ہی نہ تھی۔ واﷲ اعلم۔
4۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اور ان کے اصحاب نے فرمایا : یہودیوں عیسائیوں کو مسجد حرام سمیت کسی مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ صرف مشرکین اور بت پرستوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا جائے گا۔ اس قول کو وہ تمام باتیں رد کر رہی ہیں جو اوپر بیان ہیں۔ الکِیاَ الطبری نے کہا امام ابو حنیفہ کے نزدیک ذمّی (غیر مسلم) کو تمام مسجدوں میں ضرورت (ہو) نہ ہو داخل ہونے کی اجازت ہے۔
5۔ امام الشافعی کہتے ہیں حاجت و ضرورت کا اعتبار کیا جائے گا، رہی مسجد حرام تو اس میں حاجت ہو بھی تو ذمی کو مسجد حرام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ عطاء بن ابی رباح نے کہا حرم تمام قبلہ اور مسجد ہے لہٰذا غیر مسلموں کو حرم میں داخل ہونے سے منع کیا جائے گا۔ قتادہ نے کہا مسجد حرام کے قریب مشرک نہیں جا سکتا ہاں جزیہ دینے والا یا مسلمان کا کافر غلام ہو تو جا سکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے : مشرک مسجد کے قریب نہ جائے ہاں غلام، باندی ہو تو ضرورت کے پیش نظر جا سکتا ہے۔ یہی قول ہے حضرت جابر بن عبد اﷲ کا۔
أبو عبد اﷲ محمد بن أحمد الانصاری القرطبی، الجامع لاحکام القراٰن، 8 : 104، دار الشعيب القاهرة
الامام فخر الدين الرازی، التفسير الکبير، 16 : 26، طبع ايران
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے کفار کے مسجد حرام کے قریب جانے سے منع کرنے کا یہ مطلب لیا ہے کہ ان کو سن 9 ھ کے بعد حج و عمرہ کرنے سے منع کیا جائے۔ ان کو مسجد حرام کے پاس ناپسندہ اعمال و افعال سے روکا جائے۔
ای لا يحجوا ولا يعتمروا بعد حج عامهم هٰذا وهو عام تسعة من الهجرة.
’’اس سال یعنی سن 9 ھ کے بعد مشرکین، نہ حج کریں، نہ عمرہ‘‘۔
خاتم المحققين علامه ابو الفضل شهاب الدين السيد محمود الآلوسی البغدادی، م 1270، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 10 : 69، طبع ايران
علامه جلال الدين محمد بن المحلّی الشافعی، تفسير جلالين، 1 : 155، طبع کراچی
امام مالک و امام شافعی رحمھما اﷲ نے کہا : ’’مشرک مسجد حرام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ امام مالک نے مزید یہ کہا کہ کسی دوسری مسجد میں بھی بلا ضرورت داخل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ہو تو داخل ہو سکتا ہے جیسے ذمی حاکم کے پاس مقدمہ کے سلسلہ میں ہر مسجد میں جاسکتا ہے۔ امام شافعی نے کہا غیر مسلم مسجد حرام کے علاوہ ہر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے :
وقال اصحابنا يجوز للذمی دخول سائر المساجد.
’’اور ہمارے اصحاب (احناف) نے کہا ذمی تمام مساجد میں داخل ہو سکتا ہے‘‘۔
(سورۃ توبہ، 9 : 28) کا مطلب صرف یہ ہے کہ یا تو ممانعت کہ وہ نہ مکہ میں داخل ہو سکتے تھے نہ باقی مساجد میں صرف ان مشرکوں کے لیے تھی جو ذمی نہ تھے اور ان سے صرف دو میں سے ایک فیصلہ قبول تھا یا اسلام لائیں یا تلوار کا فیصلہ قبول کریں اور یہ عرب کے مشرک تھے یا مکہ میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ تھی کہ حج کے لیے حرم مکہ میں داخل نہ ہوں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس سال ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حج کرایا (سن 9 ھ) منی میں قربانی کے دن اعلان کروایا’’ کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، حضرت ابو بکر صدیق اضی اﷲ عنہ نے لوگوں میں اعلان کر دیا تو اگلے سال جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج (حجۃ الوداع، سن 10 ھ) کیا کسی مشرک نے حج نہیں کیا۔ تو جس سال ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے مشرکین کو یہ پیغام پہنچایا اسی سال اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُؤا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَـلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا..... الخ.}‘‘.
تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مشرکوں کو حج، وقوف عرفہ و مزدلفہ اور باقی افعال حج سے منع کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سب مسجد حرام میں نہیں ہوتے اور یہ کہ ان مقامات سے ذمیوں کو منع نہیں کیا جاتا تو ثابت ہوا کہ آیت مذکورہ کی مراد حج سے منع کرنا ہے حج کے علاوہ کوئی غیر مسلم اس کے قریب جاتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جائے گا۔
عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن وفد ثقيف لما قدموا علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ضرب لهم قبّة فی المسجد فقالوا يا رسول اﷲ قوم أنجاس فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اِنه ليس علی الأرض من أنجاس الناس شی اِنما أنجاس الناس علی أنفسهم.
’’وفد ثقیف جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئے آپ سرکار نے ان کے لیے مسجد میں قبّہ تعمیر کیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اﷲ ! یہ لوگ نجس پلید ہیں ! اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کی (بد عقیدگی کی) نجاست زمین پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس نجاست کا وبال اُنہی پر ہوتا ہے‘‘۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اﷲ عنہ سے موقوف روایت ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ جب کافر تھے مسجد نبوی میں داخل ہوتے۔ ہاں یہ بات مسجد حرام میں جائز نہیں کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
{فَـلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ}..... فی ذٰلک دلالة علی أن نجاسة الکفر لا يمنع الکافر من دخول المسجد.
’’اس میں دلیل ہے کہ نجاست کفر، کافر کو مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کرتی‘‘۔
أحمد بن علی الرازی الجصّاص، م 370ه، أحکام القرآٰن، 4 : 279، دار احياء التراث العربی، بيروت
حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أبِي سَعِيدٍ أنَّهُ سَمِعَ أبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَ تْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أثَالٍ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ وَإِنْ کُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتُرِکَ حَتَّی کَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ مَا قُلْتُ لَکَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ فَتَرَکَهُ حَتَّی کَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَکَ فَقَالَ أطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَی نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أشْهَدُ أنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ يَا مُحَمَّدُ وَاﷲِ مَا کَانَ عَلَی الْأرْضِ وَجْهٌ أبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِکَ فَقَدْ أصْبَحَ وَجْهُکَ أحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاﷲِ مَا کَانَ مِنْ دِينٍ أبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِکَ فَأصْبَحَ دِينُکَ أحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاﷲِ مَا کَانَ مِنْ بَلَدٍ أبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِکَ فَأصْبَحَ بَلَدُکَ أحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ وَإِنَّ خَيْلَکَ أخَذَتْنِي وَأنَا أرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَی فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأمَرَهُ أنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ صَبَوْتَ قَالَ لَا وَلَکِنْ أسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا وَاﷲِ لَا يَأتِيکَُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّی يَأذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی جانب کچھ سواروں کو روانہ فرمایا تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر کے لے آئے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا۔ اے ثمامہ! تمہارا کیا اراد ہ ہے؟ جواب دیا، اے محمد! میرا ارادہ نیک ہے اگر آپ مجھے قتل کریں تو گویا ایک خونی آدمی کو قتل کیا اور اگر احسان فرمائیں تو ایک احسان ماننے والے پر احسان ہوگا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ جب دوسرا روز ہوا تو آپ نے فرمایا : اے ثمامہ! کیا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا، میں کہہ چکا کہ اگر احسان فرمائیں تو احسان ماننے والے پر احسان ہوگا۔ آپ اسے چھوڑ کر چلے گئے اور اگلے روز پھر فرمایا۔ اے ثمامہ! کیا خیال ہے؟ کہنے لگا میں تو عرض کر چکا ہوں آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ وہ چلاگیا اور مسجد کے قریب ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر مسجد نبوی میں آ کر کہنے لگا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اے محمد! خدا کی قسم مجھے روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی نہ تھا، لیکن آج مجھے آپ سب سے محبوب ہیں۔ خدا کی قسم، آپ کے دین سے زیادہ مجھے کوئی دین ناپسند نہ تھا لیکن آج مجھے آپ کا دین سب سے پیارا ہے خدا کی قسم، مجھے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند کوئی شہر نہ تھا لیکن آج یہ مجھے سب شہروں سے پیارا ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے گرفتار کر لیا حالانکہ میں عمرہ کے ارادے سے جا رہا تھا اب اس بارے میں آپ کا حکم کیا ہے؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بشارت دی اور فرمایا کہ وہ عمرہ کرے۔ جب وہ مکہ مکرمہ میں پہنچا تو کسی نے اس سے کہا، کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟ جواب دیا نہیں بلکہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر مسلمان ہوگیا ہوں۔ (اگر تم نے میرے ساتھ کوئی حرکت کی تو) خدا کی قسم تمہارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘
بخاری، الصحيح، 4 : 1589، رقم : 4114، دار ابن کثير اليمامة، بيروت
مسلم، الصحيح، 3 : 1386، رقم : 1764، دار احياء التراث العربی، بيروت
شارحین حدیث اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں :
اختلف الفقهاء فی دخول المشرک المسجد. فاجازه ابو حنيفة و الشافعی.
’’فقہاء نے مشرک کے مسجد میں داخل ہونے میں اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ و شافعی رحمہما اﷲ نے اسے جائز قرار دیا ہے‘‘۔
وجوّزه ابو حنيفة فی المسجد الحرام و سائر المساجد.
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے مسجد الحرام سمیت تمام مساجد میں مشرک کا داخلہ جائز قرار دیا ہے‘‘۔
عثمان بن ابو سلیمان سے مروی ہے : مشرکین قریش اپنے بدری قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑانے آئے :
کانوا يبيتون فی مسجد الرسول.
’’وہ مسجد نبوی میں رات گزارتے تھے‘‘۔
جن میں جبیر بن مطعم بھی تھا جو مشرک تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرات سنتا تھا۔
علامه الشيخ الحسن علی بن خلف بن عبد الملک ابن بطّال البکری القرطبی البلنسی، م 449 ه، شرح ابن بطال علی صحيح البخاری، 2 : 153، طبع بيروت
شيخ انور شاه کشميری ديوبندی، فيض الباری شرح بخاری، 2 : 87، طبع بيروت
علامه کرمانی، شرح بخاری، 4 : 132، طبع بيروت
ابو العباس شهاب الدين احمد بن محمد القسطلانی، م 923ه، ارشاد الساری شرح بخاری، 1 : 455، طبع ترکی
شيخ امام علامه بدر الدين ابو محمد محمود العينی، م 855ه، عمدة القاری شرح صحيح بخاری، 4 : 236، طبع کوئٹه
نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا وفد میں ساٹھ (60) افراد تھے :
لمّا قدموا علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم المدينة فدخلوا عليه مسجده حين صلی العصر عليهم ثياب الحبرات جبُب وارَدْية. . . . يقول بعض من راٰهم من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم يومئذ ! ما رأينا وفداً مثلهم و قد حانت صلاتهم فقاموا فی مسجد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يُصلُّون، فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم دعُوهم فصلوا الی المشرق.
’’جب وہ مدینہ منورہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر ادا کر چکے تھے۔ یمنی کپڑوں میں ملبوس قبائیں اور چادریں پہنے ہوئے کچھ صحابہ کرام نے انہیں دیکھ کر کہا ہم نے اُن جیسا وفد نہیں دیکھا ان کی نماز کا وقت ہو گیا اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے لگے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں چھوڑ دو ! انہوں نے مشرق کی طرف نماز ادا کی‘‘۔
علامه ابن هشام، م 213 /218 ه، السيرة النوية، 2 : 224، طبع مصر
امام ابو القاسم عبد الرحمٰن عبد اﷲ احمد بن الحسن الخثفی، السهيلی، م 581 ه، الروض الانف شرح سيرت ابن هشام، طبع ملتان
امام محمد بن سعد، م 230 ه، الطبقات الکبریٰ، 1 : 357، طبع بيروت
حافظ ابن کثير الدمشقی، م 774 ه، البدايه و النهاية، 5 : 51، طبع بيروت
أنزل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وفد ثقيف فی المسجد، وبنی لهم خياما لکی يسمعوا القرآن، و يروا الناس اِذا صلَّوا، و کان رسولُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اِذا خطب لا يذکر نفسه، فلما سمعه وفد ثقيف، قالوا : يأمُرنا أن نشهد أنه رسول اﷲ، ولا يشهد به في خطبته، فلما بلغه قولُهم، قال : فاِني أول من شهد أني رسول اﷲ. وکانوا يغدُون اِلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کُلَّ يوم، و يخلِّفونَ عثمان بن أبي العاص علی رحالهم، لأنه أصغرُهم، فکان عثمان کلما رجع الوفد اِليه وقالوا بالهاجرة، عمد اِلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، فسأله عن الدين، و استقأه القرآن، فاختلف اِليه عثمان مراراً حتي فقه في الدين و علم، و کان اِذا وجدَ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم نائماً، عمد اِلی أبي بکر، و کان يکتم ذٰلک من أصحابه، فأعجب ذٰلک رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و أحبة، فمکث الوفد يختلِفُون اِلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و هو يدعوهم اِلی الاسلام، فأسلموا.
ابن قيم جوزی، زاد المعاد، ، 3 : 596
جاز ادخال الذمی جميع المساجد عندنا.
’’ہمارے (احناف) کے نزدیک ذمی کو تمام مساجد میں داخل کرنا جائز ہے‘‘۔
علامه زين الدين ابن نجيم الحنفی، البحر الرائق. تکمله. علامه محقق محمد الشهير بالطوری، 8 : 203، طبع کراچی
لابأس ان يدخل الکافر و اهل الذمة المسجد الحرام و بيت المقدس و سائر المساجد لمصالح المسجد و غيرها من المهمّات.
’’کافر اور ذمی کے مسجد حرام، مسجد بیت المقدس (الاقصیٰ) اور تمام مسجدوں میں مسجد کے کام یا دوسرے اہم امور کے لئے داخل ہونے میں حرج نہیں‘‘۔
خاتمة المحققين محمد امين الشهير بابن عابدين، حاشيه رد المُحتار المعروف بالشامی، 4 : 374، طبع کراچی
ولا بأس بان يدخل اهل الذمة المسجد الحرام.
’’اہل ذمہ (کفار) کے مسجد حرام میں داخل ہونے میں حرج نہیں‘‘۔
ولاٰية محمولة علی الخصور و استيلا و استعلاء أو طائفين عراة کما کانت عادتهم فی الجاهلية.
’’اور آیت (فَـلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا) محمول ہے کہ وہ مسجد حرام میں حاضر ہوں اور اس پر مسلط ہو کر غلبہ حاصل کریں اور اس کے منتظم بنیں یا ننگے ہو کر طواف کریں جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ان کی عادت تھی (اب یہ کچھ نہ ہو گا)‘‘۔
الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية المعروف فتاوی عالمگيری، 5 : 346، دار الفکر
المختصر غیر مسلم، اہل کتاب اور مشرکین مسجد میں یا حرمین شریفین میں داخل ہو سکتے ہیں منع اس وقت کیا جائے گا جب بے ادبی، فتنہ فساد یا قبضہ کرنے کی نیت سے آئیں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔