سوال نمبر:2339
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ مجھے شادی کے لیے ایک لڑکے کے گھر والوں نے پیغام بھیجا ہے، جو الحمد اللہ بہت نیک اور مہذب لوگ ہیں۔ لڑکا بھی نمازی، اچھی فطرت والا ہےاور اس میں کوئی بری عادات بھی نہیں ہیں۔ میں نے ان کے اس پیغام کو قبول کر لیا ہے۔ میں یہ ذکر کرنا چاہتی ہوں کہ میرے گھر والے خاص طور پر میری امی چاہتی ہیں کہ میری شادی کسی ڈاکٹر سے ہو یا پھر حیدر آبادی لڑکے سے ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی لڑکے والوں کو بلایا ہوا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تم ان کے سامنے نہ آئے تو اس سے ہماری عزت پر حرف آئے گا۔ میرے گھر والے یہ بھی کہہ رہے ہیں جن لوگوں پہلے مجھے شادی کے لیے پیغام بھیجا ہے ان لوگوں کا رہن سہن ہمارے مقام ومرتبہ کا نہیں ہے تو لوگ ہمیں اس سلسلے میں کیا کہیں گے۔ اس حوالے سے میں بہت پریشان ہوں۔ کیا اسلام میں عورت کو اپنی رائے دینے اور اس کی پسند کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ زبردستی شادی کے لیے لڑکی کو بلیک میل کرنا جائز ہے؟ میں امید کرتی ہوں کہ آپ کی ہدایات اور سفارشات میرے گھر والوں کو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے رہنمائی کا باعث بنیں گے۔
- سائل: صباء شاہمقام: نامعلوم
- تاریخ اشاعت: 01 جنوری 2013ء
جواب:
1۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں جب تک رضامند نہیں ہونگے نکاح نہیں ہو سکتا، یہ نہیں کہ
لڑکا لڑکی کو پسند کرے لیکن لڑکی کو وہ لڑکا پسند ہی نہ ہو، دونوں کو پکڑ کر نکاح کر
دیا جائے، جب تک لڑکی بھی رضامند نہ ہو نکاح نہیں ہو سکتا۔ دونوں سے رائے لینا والدین
کا فرض بنتا ہے۔
2۔ لڑکی جس لڑکے کو پسند کرے اور وہ لڑکا بھی اسے پسند کرتا ہو تو والدین کو چاہیے
اگر کوئی شرعی ممانعت نہ ہو تو اس کی شادی وہیں کریں جہاں لڑکی کہتی ہے۔ یہ لڑکی کا
حق ہے، اسلام میں لڑکی کو رائے دینے اور قبول کرنے یا نہ کرنے کا بھی حق ہے، اسلام میں لڑکی کو
اپنی پسند کا اظہار کرنے اور رائے دینے کی اجازت ہے۔
3۔ والدین کو زبردستی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مزید مطالعہ
کے لیے یہاں کلک کریں
کیا اسلام میں زبردستی کی شادی جائز ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔