کیا نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا شرعی طور پر ثابت ہے؟


سوال نمبر:2320
السلام علیکم پاکستان میں‌ موجود ایک مکتب فکر کی طرف سے سوال کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مطمعین کریں کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا شرعی طور پر ثابت ہے؟

  • سائل: شاہد محمودمقام: منگلا
  • تاریخ اشاعت: 30 اپریل 2013ء

زمرہ: عبادات  |  نماز جنازہ  |  عبادات  |  نماز جنازہ

جواب:

فتنہ و فساد کا دور ہے۔ شیطان ہر وقت ایسی کوششوں میں رہتا ہے کہ امت مسلمہ میں انتشار، افتراق اور تفرقہ پیدا کرے۔ جو بات کل تک اختلافی نہ تھی وہ آج کر دی گئی۔ اس امت کی تنظیم قوت اور ترقی کا راز اس کے ملی اتحاد میں مضمر ہے اور شیطان کو یہ گوارا نہیں۔ لہٰذا نت نئے وسوسہ ڈالتا اور نئے ناموں سے فرقے بناتا اور انہیں لڑاتا ہے۔

دعا مانگنا قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے عمل کے مطابق ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے بلا دلیل ہے کون مانتا ہے کون نہیں مانتا آپ یا میں اس کے ذمہ دار نہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرنا، نیکی و سعادت ہے۔ نماز، روزے، حج میں وقت کی قید ہے۔ مگر دعا کے لئے اﷲ تعالیٰ یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی وقت کی قید نہیں لگائی۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَo

’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پا جائیں‘‘۔

البقرة، 2 : 186

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي بَکْرٍ الْقُرَشِيِّ الْمُلَيْکِيِّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ اﷲُ شَيْئًا يَعْنِي أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أنْ يُسْألَ الْعَافِيَةَ وَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ فَعَلَيْکُمْ عِبَادَ اﷲِ بِالدُّعَاءِ.

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا اس کے لئے رحمت کا دروازہ کھولا گیا اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے اسے عافیت (کا سوال) زیادہ پسند ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا دعا اس مصیبت کے لئے بھی نافع ہے جو اتر چکی اور اس کے لئے بھی جو ابھی تک نہیں اتری سو اے اللہ کے بندو! دعا مانگنا اپنے اوپر لازم کر لو‘‘۔

ترمذی، السنن، 5 : 552، رقم : 3548، دار اِحياء التراث العربی بيروت

حَدَّثَنَا يَزِيْدُ بْنُ هَارُوْنَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أبِي بَکْرِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنَ الدُّعَاءِ مِنْکُمْ فُتِحَتْ لَهُ أبْوَابُ الْاِجَابَةِ.

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھل گئے‘‘۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 22، رقم : 29168، مکتبة الرشد الرياض

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأعْمَشِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيْعٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأ {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ}

[غافر، 40 : 60]

’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا ’’دعا عبادت ہے‘‘ پھر یہ فرمایا {تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرو میں قبول کرتا ہوں۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم رسید ہوں گے}‘‘۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 267، رقم : 18378، مؤسسة قرطبة مصر

  2. أبو داؤد، السنن، 2 : 76، رقم : 1479، دار الفکر

  3. ترمذی، السنن، 5 : 374، رقم : 3247

  4. ابن ماجه، السنن، 2 : 1258، رقم : 3828، دار الفکر بيروت

  5. البزار، المسند، 8 : 205، رقم : 3243، مؤسسة علوم القرآن مکتبة بيروت المدينة

  6. نسائی، السنن الکبری، 6 : 450، رقم : 11464، دار الکتب العلمية بيروت

  7. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 667، رقم : 1802، دار الکتب العلمية بيروت

  8. ابن حبان، الصحيح، 3 : 172، رقم : 890، مؤسسة الرسالة بيروت

  9. ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 21، رقم : 29167

  10. طيالسی، المسند، 1 : 108، رقم : 801، دار المعرفة بيروت

  11.  أبي يعلی، المعجم، 1 : 262، رقم : 328، ادارة العلوم الأثرية فيصل آباد

  12. طبرانی، المعجم الصغير، 2 : 208، رقم : المکتب الاسلامی دار عمار، بيروت. عمان

  13. عبد اﷲ بن المبارک، المسند، 1 : 42، رقم : 71، مکتبة المعارف الرياض

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أبِي الْحَسَنِ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَيْسَ شَيْئٌ أکْرَمَ عَلَی اﷲِ تَعَالَی مِنْ الدُّعَاءِ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز بزرگ تر نہیں‘‘۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 362، رقم : 8733

  2. ترمذی، السنن، 5 : 455، رقم : 3370

  3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1258، رقم : 3829

  4. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 666، رقم : 1801

  5. ابن حبان، الصحيح، 3 : 151، رقم : 870

  6. طبرانی، المعجم الاؤسط، 3 : 73، رقم : 2523، دار الحرمين القاهرة

  7. محمد بن سلامة، المسند، 2 : 214، رقم : 1213، مؤسسة الرسالة بيروت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَطِيَةَ اللَّيْثِيُّ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ سَرَّهُ أنْ يَسْتَجِيبَ اﷲُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْکَرْبِ فَلْيُکْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصائب میں اس کی دعا قبول فرمائے اسے صحت و کشادگی کی حالت میں کثرت سے دعا کرنی چاہیئے‘‘۔

  1. ترمذی، السنن، 5 : 462، رقم : 3372

  2.  أبو يعلی، المسند، 11 : 283، رقم : 6396

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ أبِي جَعْفَرٍ عَنْ أبَانَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ دعا، عبادت کا مغز ہے‘‘۔

  1. ترمذی، السنن، 5 : 456، رقم : 3371

  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 3 : 293

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ مَا مِنْ أحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلَّا آتَاهُ اﷲُ مَا سَألَ أوْ کَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوئِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی دعا مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرماتا جو اس نے مانگی یا اس کی مانند کوئی برائی دور کر دیتا ہے۔ جب تک کہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے‘‘۔

  1. ترمذی، السنن، 5 : 462، رقم : 3381

  2.  أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 360، رقم : 14922

دیکھا دعا کتنی بڑی نعمت ہے۔ خوش نصیب ہیں دعا مانگنے والے اور اپنے رب کی رحمت سے جھولیاں بھرنے والے۔ اور بد نصیب ہیں جو نہ دعا مانگیں نہ دوسروں کو مانگنے دیں۔ مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کو ایک مفید عبادت سے منع کرتے ہیں۔ نہ خوف خدا نہ شرم نبی، نہ اہل ایمان سے حیاء، نہ اللہ کے ہاں جوابد ہی کا خوف۔ کیسے مسلمان ہیں جو بند گان خدا کو، دعا سے محروم کرنے کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ گناہ ہے۔ گھٹیا حرکت ہے۔

{نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا}

نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی الْمَيِّتِ فَأخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ

’’عبدالعزیز بن یحییٰ حرانی، محمد ابن سلمہ، محمد بن اسحاق، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو۔‘‘

  1.  أبو داؤد، السنن، باب الدعاء للميت، 3 : 210، رقم : 3199

  2. ابن ماجه، السنن، باب ماجاء فی الدعاء فی الصلاة علی الجنازة، 1 : 480، رقم : 1497

  3. ابن حبان، الصحيح، باب : ذکر الأمر لمن صلی علی ميت أن يخلص له الدعاء، 7 : 345، رقم : 3076

  4. بيهقی، السنن الکبری، باب الدعاء فی صلاة الجنازة، 4 : 40، رقم : 6755، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

آپ کو معلوم ہے 1950ء سے ایک خاص مذہبی جماعت معرض وجود میں آئی اس سے پہلے تمام برصغیر پاک و ہند میں نماز جنازہ کے بعد دعا بھی مانگی جاتی تھی۔ حیلہ اسقاط بھی ہوتا تھا۔ تمام مساجد میں ذکر بعد نماز، اور درود و سلام ’’الصلاۃ و السلام علیک یا رسول اﷲ‘‘ بھی ہوتا تھا۔ اس وقت پاکستان کے مخالفین سارا زور پہلے تو پاکستان بننے کے خلاف اور 1947ء یعنی پاکستان بننے کے بعد دوسرا پینترا بدل کر کہ ہم صرف دین کی باتیں کرتے ہیں اس لئے کہ سیاست کے میدان میں ذلیل ہو گئے تھے پھر نئے نام ونسب سے دین کے نام پر لوگوں کے عقائد خراب کرنے لگے۔ مخلص سادہ اور ان پڑھ عوام ان کے دام تزدیر میں آ گئے ان کی گاندھوی سیاست بھول گئے اور دین کی تبلیغ کے نام پر ان ہی کے جال میں پھنس گئے اور آج یہ کانگریسی پاکستان کے مخالف مولوی پاکستان کے دو صوبوں پر حکمران ہیں۔ اللہ کی قدرت جنازہ سے پہلے یا بعدِ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے، مرنے والوں کے لئے دعائے مغفرت نہ قرآن میں منع نہ کسی حدیث پاک میں نہ اسلامی اصول و قواعد کی رو سے۔

ہم نے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ہر وقت دعائے مغفرت کے جواز واستحسان پر متعدد دلائل و شواہد پیش کئے جن کا جواب قیامت تک یہ نہیں دے سکتے۔ کہاں سے دعائے مغفرت کے خلاف کوئی آیت یا حدیث لائیں گے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ جب بھی مجھ سے میرا بندہ دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، یعنی دعا کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں، نہ ہی کوئی وقت ممنوع ہے، ہر وقت دعا مانگی جا سکتی ہے۔ اس کا در رحمت کھلا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ’’میت پر نماز جنازہ ادا کر چکو تو اس کے لئے خلوص سے دعا مانگو، اب اگر کوئی شخص دعاء سے کسی وقت منع کرتا ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ جو دروازہ اﷲ و رسول کے مقابلہ میں قابل تسلیم نہیں۔ محترم کسی بات کے جواز واستحباب کے لئے اتنی دلیل کافی ہے۔ حرام و ناجائز کہنے کے لئے کسی کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی صریح نص ہے تو پیش کرے، ہمارے سر آنکھوں پر، ہٹ دھری اچھی نہیں ہوتی۔ چونکہ دعا عبادت ہے پس اس سے انکار کرنا یا غرور و تکبر سے اسے چھوڑ دینا متکبرین، جہنمیوں، ذلیلوں کا کام ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی