جواب:
1۔ حمل ٹھہر جانے کے بعد 120 دن کے اندر حمل گرانا جائز ہے اس کے بعد جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے :
ان احدکم يجمع فی بطن أمه أربعين يوما ثم علقة مثل زلک ثم يکون مضغة مثل ذلک ثم يبعث الله ملکا فيؤمر بأربع برزقه واجله وشقی أو سعيد.
"تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت"۔
بخاری، الصحيح، 2 : 976، طبع کراچی
فقہائے کرام فرماتے ہیں:
هل يباح الاسقاط بعد الحبل يباح ما لم يتخلق شئی منه، ثم فی غير موضع ولا يکون ذلک الا بعد مائة وعشرين يوما انهم ارادا بالتخليق نفخ الروح.
کیا حمل ٹھرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے اور تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
1. ابن عابدين شامی، رد المختار، 3 : 76، طبع کراچی، پاکستان
2. ابن همام، فتح القدير، 3 : 274، طبع سکهر، پاکستان
2۔ اگر وہ رشتہ محرمات میں سے نہ ہو تو سب سے بہتر ہے زانی اور زانیہ کا ہی آپس میں نکاح کیا جائے۔ جائز ہے۔
3۔ نکاح سے پہلے جو حمل ٹھہر گیا وہ بچہ تو حرامی ہی ہو گا۔ لیکن انہیں اس کی کفالت کرنی چاہیے کیونکہ بچے کا اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
4۔ جب کوئی محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے یہ صورت اس وقت ہوتی ہے۔ مثلا کسی نے اپنی بہو، پھوپھی، بھانجی وغیرہ سے زنا کیا تو جانتے ہوئے کہ ان سے نکاح جائز نہیں پھر بھی کوئی نکاح پڑھائے اس وقت کا نکاح ختم ہو گیا۔ یعنی جان بوجھ کر اللہ تعالی کی حدوں کو توڑ لے اور ان کا مذاق اڑائے گا تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اس لیے اس کی بیوی سے نکاح بھی قائم نہیں رہے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔