جواب:
امام ابن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
مسلمان ابتداء میں ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے پھر رمضان کے روزے فرض ہو گئے جب کوئی شخص افطار کے وقت کھانا کھائے بغیر سو جاتا تو پھر اگلے روز افطار تک کھانا نہیں کھا سکتا تھا انصار میں سے صرمہ بن مالک نام کا ایک بوڑھا شخص تھا اس نے افطار کے وقت اپنی بیوی سے کہا کھانا لاؤ بیوی نے کہا میں گرم کر کے لاتی ہوں اتنی دیر میں اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا اور اگلے دن بھوک سے اس کی حالت بہت حراب ہو گئی تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی :
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.
(الْبَقَرَة ، 2 : 187)
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اﷲ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان (کے توڑنے) کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔
2۔ ثقہ روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویل کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعد ماہ شعبان میں نازل ہوا۔
جامع البيان ج 2 ص 95
3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔
السنن الکبری 4 238
4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔
مسند احمد بن حنبل، 3، 12
حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔
صحيح مسلم : کتاب الصيام، باب قفل السحور حديث نمبر 1096
درج بالا آیات اور احادیث سے پتا چلا ہے کہ روزے 2 ہجری کو شعبان کے مہینے میں فرض ہوئے اور ابتدا میں مسلمان افطار کے وقت کھانا کھائے بغیر اگر سو جاتے تو پھر دوسرے دن افطار کے وقت ہی دوبارہ کھاتے تھے۔ سونے کے ساتھ ہی روزہ بند ہو جاتا تھا۔ پھر اللہ تعالی نے سحری کا حکم دیا اور روزے کا وقت متعین کر دیا اور اس کے ساتھ سحری وافطاری کرنے کا وقت بھی بتا دیا گیا اور امت پر سے مشقت کو ختم کر دیا گیا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔