جواب:
یہ مسئلہ پوری امت مسلمہ کو درپیش ہے۔ خاص طور پر موجودہ دور میں جہاں انسانوں کے پاس وسائل بہت کم ہیں اور مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ اسلام کی تعلیمات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، پردہ میں رہنا ان کے لیے دقیانوسی سوچ ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ خاوند شادی سے پہلے اپنی بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست کرے جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکے اور جس میں پردہ بھی ہے لیکن ہمارے وسائل اتنے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن دیور جیٹھ کی ایک گھر میں موجودگی کے باوجود خواتین گھر کے اندر بھی پردے میں ہی رہتی ہیں۔ اسے سے پہلے ضروری ہے کہ ہمیں پتہ ہو کہ شرعی پردہ کسے کہتے ہیں۔ شرعی پردہ یہ ہے کہ عورت اپنے چہرے، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ پورے جسم کو ڈھانپ کر رکھے۔ اس کے علاوہ کوئی عورت نقاب کرتی ہے تو یہ مستحسن ہے، اس میں زیادہ حفاظت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو نقاب نہیں کرتی وہ بے پردہ ہے۔ ہماری جہالت ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کا کوئی علم نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی عورت شرعی پردہ کے ساتھ ایسے گھر میں رہتی ہے جہاں دیور اور جیٹھ بھی رہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ عورت گنہگار نہیں ہو گی کیونکہ یہی پردہ ہے۔
اسلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ دیور، جیٹھ اور کزنز وغیرہ کے ساتھ بات بھی نہ کی جائے اور ہر وقت ان سے چھپ کر بیٹھا جائے۔ ہم ان سے بات چیت بھی کر سکتے ہیں، لیکن شرعی پردے کے اندر رہ کر۔
اگر آپ شرعی پردہ جو اوپر بتایا گیا ہے کرتی ہیں تو پھر آپ گنہگار ہوں گی نہ ہی خاوند، اور چونکہ شرعی پردہ کرنا عورت پر فرض ہے خاوند پر نہیں۔ اگر آپ شرعی پردہ نہیں کریں گی تو پھر آپ گنہگار ہوں گی اور اگر آپ پردہ خاوند کی مرضی سے نہیں کر رہی تو پھر خاوند بھی گنہگار ہو گا۔
گھر کی ذمہ داری خاوند پر ہے اور اسے کوشش کرنی چاہیے کہ الگ گھر کا انتظام کرے اور پردے کی ذمہ داری عورت پر ہے اسے چاہیے کہ دیور اور جیٹھ کے سامنے ایک گھر میں شرعی پردے سے رہے، اگر ایسا نہیں کرے گی تو عورت گنہگار ہو گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔