اہل مکہ پر میقات سے باہر جانے کی صورت میں احرام کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:1663
اہل مکہ اور حدود میقات میں رہنے والوں پر میقات سے باہر جانے کی صورت میں واپسی احرام کا کیا حکم ہے؟

  • سائل: سید محمد آصف اقبالمقام: مکہ مکرمہ
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2012ء

زمرہ: احرام کے احکام

جواب:

ایسے لوگ جو حدود میقات سے باہر کے رہائشی ہوں اور ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہوں، اگر میقات سے باہر کا سفر کریں تو امام اعظم ابو حنیفہؒ کے موقف کے مطابق ان پر مکہ مکرمہ واپس آتے ہوئے احرام باندھ کر آنا ضروری ہوگا اور مکہ آکر عمرہ کرنا ہوگا۔ فقہا نے اس شخص کے لیے بھی یہی حکم جاری کیا ہے جو مکہ مکرمہ کا رہائشی ہو۔

علامہ ابن نجیم حنفیؒ (م970ھ) لکھتے ہیں:

المكي إذا خرج من الحرم لحاجة أن يدخل مكة بغير إحرام بشرط أن لا يكون جاوز الميقات كالآفاقي، فإن جاوزه فليس له أن يدخل مكة من غير إحرام لأنه صار آفاقيا.

(ابن نجيم حنفی، البحر الرائق، 2 / 343)

”اگر مکہ مکرمہ کا رہنے والا کسی حاجت کے تحت حرم سے نکلے تو وہ بغیر احرام واپس مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتا ہے بشرطیکہ میقات سے تجاوز نہ کرے جیسا کہ آفاقی کا حکم ہے۔ اگر میقات کی حدود سے آگے چلا جائے تو بلا اِحرام داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ اب وہ آفاقی ہو گیا ہے۔“

بایں ہمہ فقہاء کرام نے ایسے شخص کے لئے یہ حیلہ بتایا ہے کہ وہ میقات کی بجائے مکہ مکرمہ کی حدود میقات کے اندر کسی اور جگہ کا ارادہ کرلے اور وہاں پہنچ کر پھر وہاں سے مکہ آجائے ایسی صورت میں اس پر احرام باندھنا بھی لازم نہ ہوگا۔

علامہ بابرتی حنفی (م786ھ) لکھتے ہیں:

الحيلة لمن أراد من الآفاقي دخوله بغير إحرام أن يقصد بستان بنی عامر أو غيره من الحل، فلا يجب الإحرام.

(بابرتی، العناية علی الهداية، 2 / 429)

”جو آفاقی احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا چاہے اس کے لیے یہ حیلہ ہے کہ بستان بنی عمار یا حل کی کسی اور جگہ کا ارادہ کر لے تاکہ احرام واجب نہ ہو۔“

شمس الأئمۃ امام سرخسی حنفی (م483ھ) نے اس موضوع پر پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے مسئلہ کا شافی حل فراہم کیا ہے۔ آپ اپنی کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں:

وحجتنا في ذلك حديث ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم رخص للحطابين أن يدخلوا مكة بغير إحرام، والظاهر أنهم لا يجاوزون الميقات. فدل أن كل من كان داخل الميقات له أن يدخل مكة بغير إحرام، وابن عمر رضي الله عنه خرج من مكة يريد المدينة، فلما انتهى إلى قديد بلغته فتنة بالمدينة، فرجع إلى مكة، ودخلها بغير إحرام.

وكان المعنى فيه أن من كان داخل الميقات فهو بمنزلة أهل مكة، لأنه محتاج إلى الدخول في كل وقت، ولأن مصالحهم متعلقة بأهل مكة، ومصالح أهل مكة متعلقة بهم. فكما يجوز لأهل مكة أن يخرجوا لحوائجهم ثم يدخلوها بغير إحرام؟ فكذا لأهل الميقات. وهذا لأنا لو ألزمناهم الإحرام في كل وقت كان عليهم من الضرر ما لا يخفى، فربما يحتاجون إليه في كل يوم. فلهذا جوزنا لهم الدخول بغير إحرام، إلا إذا أرادوا النسك؛ فالنسك لا يتأدى إلا بإحرام، وإرادة النسك لا تكون عند كل دخول.

(السرخسی، المبسوط، 4 / 168)

”اس میں ہماری دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم نے لکڑ ہاروں کو مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ظاہر ہے کہ وہ میقات کو تجاوز نہیں کرتے تھے۔ پس یہ دلالت کرتی ہے اس پر کہ ہر وہ شخص جو میقات میں داخل ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہو۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو جب قدید کے مقام پر پہنچے تو انہیں مدینہ میں بپا ہونے والے فتنہ کی خبر پہنچی تو وہ واپس مکہ کی جانب چل پڑے، اور پھر اس میں بغیر احرام کے داخل ہوئے۔

”اس سے مراد یہ ہوا کہ ہر وہ شخص جو میقات میں داخل ہو وہ اہل مکہ کی بمنزل ہے، کیونکہ وہ ہر وقت مکہ میں داخل ہونے کے محتاج ہوتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان کی ضروریات اور مصالح اہل مکہ سے اور اہل مکہ کی ضروریات اور مصالح ان کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں۔ پس جس طرح اہل مکہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے مکہ سے باہر جائیں اور پھر بغیر احرام کے اس میں داخل ہوجائیں اسی طرح اہل میقات کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر ہم ہر وقت ان کے لیے اِحرام لازمی قرار دے دیں تو ان کے لیے ایسا حرج ہوگا جو تکلیف ما لا یطاق لازم ہوگی۔ پس ہوسکتا ہے انہیں ہر روز مکہ میں داخل ہونے کی حاجت ہو۔ لہٰذا ہم نے ان کے لیے مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کو جائز قرار دیا، مگر یہ کہ وہ مناسک حج کا ارادہ رکھتے ہوں تو یہ مناسک بغیر احرام کے ادا نہیں ہوتے، اور ہر دخول کے وقت مناسک کا ارادہ بھی نہیں ہوتا۔“

اسی طرح علامہ ابن نجیم حنفیؒ (م970ھ) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

وقيدنا بقصد مكة لأن الآفاقي إذا قصد موضعا من الحل كخليص يجوز له أن يتجاوز الميقات غير محرم، وإذا وصل إليه التحق بأهله. ومن كان داخل الميقات فله أن يدخل مكة بغير إحرام إذا لم يقصد الحج أو العمرة، وهي الحيلة لمن أراد أن يدخل مكة بغير إحرام.

وينبغي أن لا تجوز هذه الحيلة للمأمور بالحج، لأنه حينئذ لم يكن سفره للحج، ولأنه مأمور بحجة آفاقية؛ وإذا دخل مكة بغير إحرام صارت حجته مكية. فكان مخالفا وهذا المأمور بالحج ليس له أن يحرم بالعمرة.

(ابن نجيم حنفى، البحر الرائق، 2 / 342)

”اور ہم نے اسے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کے ارادے سے مقید کیا ہے کیونکہ آفاقی جب حل میں سے کسی جگہ کا قصد کرتا ہے خالص مکی شخص کی طرح تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بغیر احرام کے میقات کو تجاوز کرلے، اور جب وہ اس (مطلوبہ) جگہ تک پہنچ گیا تو وہ اس کے اہل میں سے ہوگیا۔ اور جو میقات کے اندر رہنے والا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہو اگر اس کا مقصد حج اور عمرہ کا نہ ہو تو۔ یہی (واحد) حیلہ ہے اس شخص کے لیے جو مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا چاہتا ہے۔

”اور مناسب ہے کہ یہ حیلہ مامور بالحج شخص کے لیے جائز نہ ہو، کیونکہ اس وقت اس کا سفر حج کے لیے نہیں تھا، اور اس لیے بھی کہ وہ آفاقی حج کا مأمور ہے۔ جب وہ مکہ میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کا حج مکی حج ہو جاتا ہے، پس وہ مخالفت کرنے والا ہوا، اور مامور بالحج کو روا نہیں کہ وہ عمرہ کے لیے احرام باندھے۔“

مذکورہ بالا تفصیل احناف کے موقف کے مطابق ہے۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے ہاں احرام اسی شخص پر واجب ہوتا ہے جو عبادت کی نیت سے آئے۔ جس شخص کا ارادہ حج یا عمرہ کا نہ ہو اسے مکہ مکرمہ میں داخلے کے لیے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں۔ یہی موقف امام سرخسی کی عبارت سے بھی مترشح ہوتا ہے۔

مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
بغیر طواف مکہ مکرمہ سے واپس آ جانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد فاروق رانا