کیا اسلام مشترکہ کاروبار کو جائز سمجھتا ہے؟


سوال نمبر:1292
کیا ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر منافع دینے والی غیر مسلم کمپینوں کی طرح مسلمان بھی کر سکتے ہیں؟

  • سائل: شبیر علیمقام: کلکتہ، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 05 جنوری 2012ء

زمرہ: مضاربت

جواب:

مسلمانوں کے پاس اس طرح کے کاروبار کے لیے شرعی طریقہ بیع مضاربہ اور مشارکہ کی صورت میں موجود ہے۔

  • مضاربہ میں سرمایہ ایک شخص کا اور دوسرے شخص کا ہوتا ہے، مضاربہ سے جتنا منافع حاصل ہو طے شدہ مناسب کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
  • مشارکہ میں دو یا زیادہ لوگ اپنا اپنا سرمایہ لگاتے ہیں، جو منافع ہوتا ہے آپس میں طے شدہ مناسب کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔

مسلمان یہ دونوں طریقے اپنا کر اپنا کاروبار اور منافع بڑھا سکتے ہیں، دوسرا کوئی بھی کمپنی ہو، خواہ مسلمانوں کی یا ہندوؤں کی یا کسی بھی، اگر اس نے منافع فکس کیا، مثلاً ایک لاکھ پر 5000 تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر منافع میں سے طے شدہ تناسب کے مطابق جتنا مقرر کرتی ہے، کمپنی آپ کو دے تو یہ جائز ہے۔

تو گویا فکس کرنے کے دو طریقے ہوئے:

  • ایک لاکھ لے کر 5000 دے دینا، یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اور سود ہے۔
  • دوسری صورت ایک لاکھ لے کر ٪ 10 یا ٪ 5 دے تو یہ جائز ہے۔

کیونکہ دوسری صورت میں رقم فکس نہیں ہے، اس لیے یہ صورت جائز ہے، ہو سکتا ہے ایک ماہ آپ کا منافع ٪ 5 کی صورت میں 1000 ہو اور دوسرے ماہ ٪ 5 کی صورت میں منافع 8000 ہو، ایسی صورت میں انسان نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے۔ جبکہ پہلی صورت میں ایسا نہیں ہے۔ اس نے ہر صورت میں 5000 جو فکس کیے ہیں، ادا کرنے ہیں اور یہ سود ہے جو حرام ہے۔

ایسی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے شرعاً کوئی حرج نہیں، ان کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ فقط محنت مزدوری کرتے ہیں، سود کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا کمیشن پر محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایسی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے۔ البتہ سود لینے والا، دینے والا، گواہ اور کاتب (اس کو لکھنے والا) ان کے لیے جائز نہیں ہیں۔ حدیث میں ان چار لوگوں کو سود خور کہا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ متبادل کام تلاش کرتے رہیں، جونہی انہیں کسی دوسری جگہ کام ملے سود والی کمپنی سے فوراً کام کرنا چھوڑ دیں۔

حالت اضطراری میں حرام چیز بھی حلال ہو جاتی ہے، اگر سود کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور دوسرا کوئی راستہ نہیں تو پھر جائز ہے۔ جیسے جان بچانے کے لیے مردار کا کھا لینا وغیرہ

قرآن میں آیا ہے :

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(الْبَقَرَة ، 2 : 173)

پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo

شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ واقعی مجبور ہے، ورنہ نہیں۔

غیر مسلموں کے ساتھ کام کرنا یا تجارت کرنا اصلاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، فقط سود اور حرام کاموں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہیے۔ فقط ایسے کفار سے جو مسلمانوں کے دشمن ہوں، جنہیں حربی کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات جائز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوں اور ہر وقت مسلمانوں کو ایذا اور تکلیف دیں۔

مضاربت سے متعلق تفصیلی مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی