اگر تصوف ہی احسان ہے تو اس کا نام بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟


سوال نمبر:125
اگر تصوف ہی احسان ہے تو اس کا نام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات

جواب:

تصوف فقہ الباطن (یعنی احوال باطنی کی فقہ) ہے اور یہ درجہ احسان کی تعلیمات و ہدایات پر مشتمل علم کا اصطلاحی نام ہے۔ اصطلاحات کے بدلنے سے نفس مضمون نہیں بدلا کرتا پوری تاریخ اسلام اس پر شاہد ہے کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً علم التفسیر، علم القرات، علم الحدیث، علم الفقہ، علم الکلام وغیرہ تمام علوم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور میں عملی طور پر موجود تھے لیکن انہیں باقاعدہ ایک علم کے طور پر مدون کیا گیا نہ فن کی شکل دی گئی تھی اور نہ ہی ان کے یہ نام وضع کیے گئے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلاوتِ قرآن فرماتے اور اپنے قول و عمل سے آیات کی تشریح بھی فرما دیتے، لیکن اس تشریح کو باقاعدہ اصطلاحی طور پر علم تفسیر نہیں کہا جاتا تھا۔

اسی طرح قرآن و حدیث کے ذریعے احکام شرعیت بیان کیے جاتے تھے مگر عہد صحابہ میں اسے ’’علم الفقہ‘‘ کا باقاعدہ نام نہیں دیا گیا تھا۔ عقائد اسلامی بھی قرآن و حدیث کی شکل میں بیان کیے جاتے تھے مگر انہیں ’’علم العقائد‘‘ کا عنوان نہیں دیا گیا تھا۔ احوال سیرت اور اخلاق نبوی کو بیان کیا جاتا تھا مگر باقاعدہ ’’علم سیرت‘‘ کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح اخلاص، نیت، توبہ، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت اور اصلاح باطن کے احوال بیان کیے جاتے تھے اور صحابہ و تابعین کے ادوار میں ان پر محنت بھی کی جاتی تھی مگر دوسرے مضامین کی طرح اسے بھی الگ سے کوئی نام یا اصطلاح نہیں دی گئی تھی۔ اسے تزکیہ، احسان یا زہد سے ہی بیان کر لیا جاتا تھا۔ بعد ازاں جب ہر موضوع اور مضمون کو الگ الگ عنوانات اور اصطلاحات سے یاد کیا جانے لگا تو اسے بھی ’’تصوف‘‘ کا نام دے دیا گیا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔