سوال نمبر:1108
السلام و علیکم۔
محترم ایک مسئلے کا حل درکار ہے۔ میں ایک پرائیوٹ کمپنی میں تیرہ سال سے کام کرتا ہوں اور میری تنخواہ تیرہ ہزار ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس میں برکت نہیں ہے۔ میں یہاں پر پے رول انچارج کا کام کرتا ہوں بعض اوقات خیال آتا ہے کہ شاید سیلری بناتے وقت کوئی کمی بیشی ہو جاتی ہے لیکن میں یہ جان بوجھ کر نہیں کرتا یا ہو سکتا ہے میں کمپنی کے کام میں کوتاہی کرتا ہوں۔
میں نے ہمیشہ حلال روزی کو ہی ترجیح دی ہے اور ہمیشہ کوشش کی ہے کہ حرام کی کمائی میں یا میرے گھر والے نہ کھائے۔ میں اب یہ نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں۔میرے پاس کچھ سونا ہے میں اسے بیچ کر پک اپ خریدنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے اور میں رقم بنک سے لینا چاہتا ہوں لیکن میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ سود لینے والا اور سود دینے والہ دونوں دوزخی ہیں تو پوچھنا تھا کہ ایسی صورت میں کیا کروں کیونکہ کوئی ایسا ادارہ نہیں جو سود کے بغیر قرض یا لون دیتا ہو۔
میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔
- سائل: محمد ارسلانمقام: سیالکوٹ، پاکستان
- تاریخ اشاعت: 09 جولائی 2011ء
جواب:
ہرمسلمان جانتا ہے کہ سود لینا، دینا، لکھنا اور گواہ بننا شرعا حرام بلکہ اشد
حرام ہے۔حکومت مسلمانوں کی ہوتی تو سب سے پہلے حسب وعدہ اس ملک سے سود کا
خاتمہ کرتے مگر افسوس جھوٹے، ظالم اور نام نہاد مسلمانوں نے اپنے یہودی سرپرستوں کی
رضا کے لیے سودی نظام کو تحفظ دے رکھا ہے اور اسلام کا عادلانہ نظام یہ ظالم حکمران
نہیں آنے دیتے۔ اگر آپ کو قرضہ حسنہ یا مضاربہ وغیرہ کی صورت میں اپنے کاروبار کے
لیے سرمایہ مل سکتا ہے تو آپ کے لیے یہ سودی روپیہ حاصل کرنا حرام ہے۔ اگر رزق
کمانے کا کوئی حلال طریقہ نہیں اور حالت اضطرار ہے تو ٹیکسی یا کار حاصل کر سکتے
ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جونہی رزق حلال کمانے کی کوئی صورت نکلی آپ اس ظلم سے باز
آجائیں گے۔ جس طرح خنزیر کھا لینا حالت اضطرار میں جائز ہے اسی طرح سودی قرضہ پر
ٹیکسی لینا بھی جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔