جواب:
بزرگان دین کے مزارات پر جانا بڑی سعادت کی بات ہے اور ایسے مقرب لوگوں کا وسیلہ مقبول ہوتا ہے۔ یہ سلف صالحین بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا معمول رہا ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوا اور بیٹھ کر خاک سر پر ڈالتا رہا اور یہ کہتا رہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے سنا، آپ نے اللہ سے لیا اور ہم نے آپ سے لیا اور ہم نے آپ سے جو قرآن مجید لیا اس میں یہ بھی ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
(النساء، 4 : 64)
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ظلمت نفسی وجئتک نستغفرلی فنودی من القبر انه قد غفرلک
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اس لیے کہ میری معافی کے لیے دعا فرمائیں۔ قبر انور سے آواز آئی کہ تمہاری مغفرت ہوگئی۔
(الجامع لاحکام القرآن، امام قرطبی، جلد 3، جزو 5، صفحه 172)
یہ واقعہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور کثیر ائمہ دین نے بیان کیا ہے۔ اس طرح بزرگان دین کے مزارات پر جانا اور وہاں پر اپنی حاجت کے لیے وسیلہ پیش کرنا مستحب ہے۔
مَنت خاص اللہ تعالی کے لیے ہوتی ہے۔ صرف اس کا ثواب کسی بزرگ کو پہنچانا جائز ہے۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ طعام کو خاص مزار پر لے جا کر تقسیم کیا جائے، بلکہ جہاں بھی تقسیم ہو ثواب پہنچتا ہے۔ وسیلہ کرنا مستحب ہے، فرض نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔