کیا قُل، چالیسواں اور برسی کے ختم جائز ہیں یا نہیں؟


سوال نمبر:1084
کیا قُل، چالیسواں اور برسی کے ختم جائز ہیں یا نہیں؟ اگر جائز ہیں تو حدیث کا حوالہ دیں۔

  • سائل: عاقب حسینمقام: بحرین
  • تاریخ اشاعت: 29 جون 2011ء

زمرہ: ایصال ثواب

جواب:

قُل، چالیسواں، برسی اور عرس وغیرہ تمام ایصال ثواب کی صورتیں ہیں اور اس میں ایک بھی خلاف شرع نہیں ہے۔ صرف یہ بات یاد رکھیں کہ قُل، چالیسواں، برسی اور عرس عرف عام میں ایک خاص تاریخ کو منعقد ہوتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوں تخصیص ہوگئی اور تخصیص منع ہے؟

ایک قاعدہ اور کلیہ ہے کہ ایک تخصیص شرعی ہے اور ایک عرفی ہے، شرعی تخصیص مثلاً عیدین کے لیے دن مقرر کرنا، حج، رمضان اور نماز کے لیے وقت مقرر ہے، مگر یہ شارع کی طرف سے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ جو عرفی تخصیص ہے وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ بعض ایسے امور ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کے لیے کوئی وقت، کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً دعوت و تبلیغ، ایصال ثواب، اسی طرح حسن سلوک، صلہ رحمی، نیکی کرنا، تلاوت قرآن کرنا، وعظ ونصیحت کرنا وغیرہ وغیرہ یہ ایسے تمام امور ہیں جن کا حکم موجود ہے۔ مگر کوئی خاص طریقہ یا ٹائم مقرر نہیں اس لیے لوگ اپنے اپنے عرف کے مطابق تاریخ وغیرہ مقرر کرتے ہیں یا اپنے علاقے کے رواج کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کو عرفی تخصیص کہتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ ایصال ثواب ہر وقت، ہر دن، کسی بھی مہینے اور کسی بھی سال پہنچتا ہے۔ اسی طرح مسجد بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر یہ تخصیص نہیں کیا کہ کون سے دن بنیاد رکھنی چاہیے؟ لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے لیے کون سی جگہ مناسب ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ مسجد کی تعمیر پر کسی مکتب فکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مدرسہ کا بھی یہی حکم ہے۔

پوری دنیا میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میری مسجد عین سنت کے مطابق ہے اور فلاں کی سنت کے مطابق نہیں ہے۔ اس میں شریعت نے کوئی تفصیل نہیں دی۔ بس یہی حکم ایصال ثواب کا ہے، جس دن بھی ممکن ہو کر سکتے ہیں۔ چاہیے تیسرے دن، چالیسویں دن یا کوئی اور دن مقرر کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان