جواب:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
انما انا قاسم والله يعطی.
(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)
اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔
علماء کرام فرماتے ہیں یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کے حوالے سے ہے۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ جب تک میں حیات ظاہری کے ساتھ زندہ ہوں تو تقسیم کرنے والا ہوں بلکہ حیات برزخی یعنی روحانی طور پر تقسیم بھی میں کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ والله يعطی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کیا کیا دیتا ہے بیان نہیں کیا، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔
جب یہ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کرنے والے ہیں تو تقسیم کرنے والے کو مجازا عطا کرنے والا کہا جاتا ہے آپ اپنے معاشرے میں مشاہدہ کریں جب بھی کوئی چیز تقسیم کی جاتی ہے تو لوگ اس سے مانگتے ہیں کہ زیادہ دو یا مجھے بھی دو وغیرہ اگرچہ چیز کسی اور کے حکم پر دی جاتی ہے۔
چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام تمام اکابرین امت کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں بیان کیا گیا ہے :
ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی.
(سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔
دوسری حدیث پاک میں ہے :
حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.
(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)
میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
اسی طرح فرمایا تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔