جواب:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائرہ ماذونیت میں مختار کل ہیں۔ دائرہ
ماذونیت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذن اور اختیار دیا گیا
ہے۔
بعض کلمات کا اطلاق بعض مقامات میں مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً لفظ کل جب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مقرب بندہ کے لیے استعمال ہوگا تو اضافی معنی میں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مختار کل کا لفظ اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظ کل مخلوق کے لیے ہو تو اس کے اطلاقات درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کل ہے تو وہی چیز کسی دوسرے کے مقابلے میں جزو بھی ہوسکتی ہے۔
انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہوجائے وہ ماکان اور وما یکون کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے، اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کل انسانی علم جب حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے میں جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے مقابلے میں کل ہو گا۔ مگر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کل علم معبود الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے گا تو یہ جزو ہوگا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے اختیارات آپ علیہ السلام کے دائرہ ماذونیت میں ہیں، جس میں آپ مختار کل ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره ونهيه واخباره و بيانه.
اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔
(ابن تيميه، الصارم المسلول علی شاتم الرسول : 41)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔