کیا سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہو سکتا ہے؟


سوال نمبر:926
کیا سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہو سکتا ہے؟

  • سائل: سید جواد علیمقام: سیالت
  • تاریخ اشاعت: 28 اپریل 2011ء

زمرہ: مسئلہ کفو

جواب:

سیدہ کا غیر سید سے نکاح کے بارے میں اصل مسئلہ کفو یعنی برابری اور مساوات کا ہے۔ اس بنیاد پر بعض علماء کرام سیدہ کا نکاح غیر سید سے حرام جانتے ہیں لیکن تحقیقی بات یہ نہیں ہے۔

اسلام نے نکاح کا مقصد محبت و الفت بتایا ہے لہذا نکاح کرتے وقت چند امور کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے میاں بیوی کے درمیان جہاں تک ممکن ہو محبت، یگانگت اور ہمدردی پیدا کی جائے، جو رشتہ ازدواج کی پائیداری کا سبب بنے تاکہ میاں بیوی میں اتفاق ہو اور وہ پرسکون زندگی گرار سکیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.

(النِّسَآء ، 4 : 3)

تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔

یہ بات بنیادی ہے، اسلام نے یہ حق ہر مرد اور عورت کو دیا ہے لہذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے۔ یہاں تک کہ باپ اور دادا کو بھی جبر کا اختیار نہیں ہے۔

ہدایہ میں ہے :

ولا يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح.

(هدايه، 2 : 312)

کنواری (خواہ مطلقہ یا بیوہ) بالغ لڑکی کا زبردستی نکاح کرنے کا اس کے ولی کو بھی اختیار نہیں۔

فقہاء کرام فرماتے ہیں :

ينعقد نکاح الحره العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی.

ہر آزاد عقل مند بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے۔

احناف اور دیگر ائمہ نے کفو کا اعتبار کیا ہے۔ انہوں نے بھی کبھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہوتا بلکہ یہ فرمایا کہ بالغ لڑکی غیر کفو میں نکاح کرے اور باپ یا دادا سے اجازت نہ لے تو ان حضرات کو اعترض کا حق ہے اور وہ قاضی کے پاس تنسیخ نکاح کا دعویٰ کرسکتے ہیں اگر نکاح ہی نہیں ہوتا تو اعتراض کس کا۔

(بدائع الضائع، 2 / 318)

باپ اور دادا کی اجازت سے تو غیر کفو میں نکاح ناجائز ہونا کسی کے قول سے ثابت نہیں ہے، سب کے نزدیک جائز ہے۔ قرآن مجید میں جن رشتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے اس میں سیدہ کا غیر سید سے نکاح نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی حدیث پاک میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے آپ منہاج الفتوی کی تیسری جلد کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی