بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ مؤذن منبر کے سامنے کھڑا ہو، جبکہ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ مؤذن مسجد سے باہر نکل کر اذان دے۔ آیا دونوں طریقے جائز ہیں یا صرف کوئی ایک؟ جمہور علماء کرام کا اتفاق کس پر ہے؟ براہ مہربانی حدیث مبارکہ کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
جواب:
مذکورہ مسئلہ میں ایک اصل ہے اور ایک فرع۔ جہاں تک اصل کا تعلق ہے اس پر تو سب کا
اتفاق ہے اور وہ یہ کہ اذان ثانی مطلقاً سنت ہے اور مقصد نماز کی طرف دعوت ہے۔ اب یہ
مسئلہ کہ یہ اذان کہاں دی جائے تو یہ فرع کی حیثیت سے ہے جو حضرات فرماتے ہیں کہ یہ
اذان مسجد کے دروازے یا باہر دینی چاہیے تو ان کی دلیل ابوداؤد شریف کی حدیث پاک ہے
جس میں یہ مذکور ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوتے
تو ان کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی۔
فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ "بین ہدیہ" کے الفاظ مبہم ہیں کہ اس سے مراد کتنا دور ہونا چاہے تو اکثر فقہاء کرام کے نزدیک اس سے مراد عندالمنبر کہا گیا ہے۔
اسی طرح صاحب فتح القدیر نے "شرح ہدایہ" میں یہی مراد لیا ہے کہ منبر کے قریب ہو۔
"باب المسجد" کے الفاظ حدیث پاک میں مذکور ہیں لیکن اگر کسی مسجد کا دروازہ مشرق کی جانب نہ ہو تو پھر اس پر عمل کس طرح کیا جائے گا۔ اس لیے اگر خاص دروازہ مراد ہو تو پھر جو الفاظ سامنے پر دلالت کر رہے ہیں اس پر عمل کرنا درست نہ ہوا لہذا اس بات میں کوئی خاص تنازع کی بات نہیں ہے صرف افضلیت کی بات ہے تو عامۃ المسلمین کا عمل یہی ہے۔ منبر کے سامنے قریب سے اذان دی جاتی ہے جو لوگ باہر اذان دینے کے قائل ہیں تو ان پر اعتراض نہیں ہے دونوں طریقے جائز ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔