جواب:
اسلام کا تصور قرض کے بارے میں بالکل واضح ہے اور اس پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَo
(الْبَقَرَة ، 2 : 245)
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگےo
امام قرطبی فرماتے ہیں : قرض کا ثواب عظیم ہے اس لیے کہ اس میں مسلمان کی جاجت روائی ہے۔ (قرطبی، 1 : 157)
اسلام میں قرض دینا اور لینا دونوں جائز ہیں۔ دینے والے کو بہت زیادہ ثواب دیا جائے گا۔
مطلقاً قرض کے پیسوں سے مکان خریدنا یا کوئی بھی کاروبار وغیرہ کرنا جائز ہے۔ چاہے قسطوں پر ہو یا مکمل قرض ہو۔ اصل مسئلہ سود کا ہے۔
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
کُل قَرض جرَّ نَفعَةٌ فهو ربوا.
ہر وہ قرض جو ساتھ نفع لائے تو وہ ربوا ہے یعنی سود ہے۔
البتہ ایک چیز کی قیمت نقد مثلاً 100 روپے ہے تو قرض میں اس سے زیادہ لے سکتے ہیں لیکن اگر کسی کو رقم دی مثلاً 1000 روپے، تو اس پر نفع نہیں لے سکتا جیسے 1001 روپے یہ سود ہے۔ اس لیے یہ ایک روپے کا اضافہ یہ نفع ہے اور یہ سود ہے جو کہ حرام ہے۔
باقی اگر مکان، زمین اور گاڑی وغیرہ جو چیز بھی نقد بیچنے پر 1000 روپے کا ہے تو قسطوں پر یا قرض پر بیچنے میں زیادہ رقم لینا سود نہیں ہے۔ جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔