اگر عید جمعہ کے دن ہو تو نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:685
اگر عید جمعہ کے دن ہو تو نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2011ء

زمرہ: نماز عیدین

جواب:

:  اگر عید جمعہ کے دن آ جائے تو دونوں نمازیں اپنے اپنے مقررہ اوقات پر حسبِ معمول ادا کی جائیں گی۔ رحمتیں اور برکتیں دوگنا ہو جائیں گی۔

1۔ ابو صالح الزیات سے مروی ہے :

إِنَّ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم اجْتَمَعَ فِی زَمَانَه يَوْمٍ جُمْعَةِ وَ يَوْمَ فطر، فَقَالَ :  إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ يُوْم، قد اجْتَمَعَ فِيْه عَيْدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ فَلْيَنْقَلِبْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْتَظِرَ فَلْيَنْتَظِرْ.

 عبد الرزاق، المصنف، 3 :  304، رقم :  5729

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ اور عید الفطر ایک دن میں جمع ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا :  آج ایک دن میں دو عیدیں جمع ہوگئیں، جو گھر واپس جانا چاہے چلا جائے اور جو نماز جمعہ کا انتظار کرنا چاہے، وہ انتظار کرے۔‘‘

2۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا عید الفطر اور جمعہ کا دن جمع ہوگئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نماز عید کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور پھر فرمایا :  یہ دو عیدیں ایک دن میں جمع ہو گئی ہیں۔

فمن کان من أهل العوالی فأحب أن يمکث حتی يشهد الجمعة فليفعل، ومن أحب أن ينصرف فقد أذنا له.

 عبد الرزاق، المصنف، 3 :  305، رقم :  5732

’’پس جو مضافات کا باشندہ ہے اور نماز جمعہ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو شامل ہو جائے اور جو گھر کو لوٹنا چاہے تو اسے بھی اجازت دے دی گئی ہے۔‘‘

3۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقرأ فی الجمعة والعيد بِه :  ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی﴾ وَ ﴿هَلْ أَتَاکَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِ﴾ فَإِذَا اجْتَمَع الجمعة وَ العيدان فی يوم قرأ بهما.

 نسائی، السنن الکبری، 1 :  547، رقم :  1775

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ و نماز عید میں سَبِّح اسْمَ رَبِّکَ الاعْلٰی  (سورۃ الاعلی) اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِo (سورۃ الغاشیہ) پڑھا کرتے تھے۔ جب ایک دن میں جمعہ و عیدین جمع ہو جائے تو (بھی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی دو سورتیں پڑھتے تھے۔‘‘

4۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا :

أَشَهِدْتَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عِيْدَيْنِ؟ قَالَ :  نَعَمْ، صَلَّی الْعِيْدَ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ ثُمَّ رَخَّصَ فِی الْجُمعَة.

 نسائی، السنن، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في التخلف عن الجمعة لمن شهد العيد، 3 :  194، رقم :  1591

’’کیا آپ نے دو عیدیں (یعنی جمعہ اور عید اکٹھی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی ہیں؟ انہوں نے کہا :  جی ہاں! سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دن چڑھے نمازِ عید پڑھائی پھر نماز جمعہ میں رخصت عطا فرما دی۔‘‘

5۔ امام محمد نے الجامع الصغیر میں ایک ہی دن میں دو عیدوں کے جمع ہونے کے متعلق فرمایا :

يشهدهما جميعًا ولا يترک واحدا منهما، والأولي منهما سنة والأخری فريضة.

 ابن نجيم، البحرالرائق، 2 :  70

’’دونوں میں حاضری ہوگی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، کیونکہ پہلی سنت (واجب) ہے دوسری فرض۔‘‘

6۔ علامہ شامی فرماتے ہیں : 

عيدان اجتمعا فی يوم واحد، فالاول سنة والثاني فريضة، ولا يترک واحد منهما.

 ابن عابدين، رد المحتار، 2 :  166

’’جب ایک دن میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہو جائیں تو پہلی سنت (واجب) اور دوسری فرض ہے۔ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘

7۔ امام ابو بکر بن مسعود کاسانی فرماتے ہیں :

تجب صلاة العيدين علی أهل الاحصار کما تجب الجمعة.

’’دونوں عیدوں کی نماز شہریوں پر ایسی ہی واجب ہے جیسے نماز جمعہ واجب ہے۔‘‘

امام کاسانی البدائع الصنائع میں امام محمد کی رائے سے متعلق لکھتے ہیں :

فإنه قال فی العيدين اجتمعا فی يوم واحد، فا لأول سنة . . . فی الجامع الصغير أنها واجبة بالسنة . . . والصحيح أنها واجبة.

 کاسانی، بدائع الصنائع، 1 :  275

’’امام محمد نے کہا جمعہ اور عید ایک دن میں جمعہ ہو جائیں تو پہلی (نماز عید) سنت ہے ۔ ۔ ۔ جامع صغیر میں ہے کہ نماز عید سنت کی رو سے واجب ہے ۔ ۔ ۔ صحیح یہ ہے کہ نماز عید واجب ہے۔‘‘

تبصرہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز عید و جمعہ دونوں پڑھائیں۔ ہمارے لئے یہ دلیل کافی ہے۔ ہم جو کچھ سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ نماز عید پڑھا کر مضافات مدینہ سے آنے والے لوگوں کو آپ نے رخصت دے دی کہ جو چاہے مدینہ منورہ میں رہے اور نماز جمعہ بھی ادا کرے اور جن کے گھر شہر سے اتنے دور ہیں کہ وہاں نماز جمعہ و عیدین ادا نہیں کر سکتے وہ چاہیں تو نماز جمعہ ادا کرنے سے پہلے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ پس جو شہر میں رہ جائیں گے ان پر نماز جمعہ فرض ہوگی اور جو جمعہ کے وقت سے پہلے ہی گاؤں چلے گئے ان پر نماز جمعہ فرض ہی نہ ہوئی کہ اس کے لئے شہر ہونا شرط ہے۔ (واﷲ اَعلم ورسولہ۔)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔