جواب:
نام وَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال : لا يجوز للمعتکف إلا الصلة والقراء ة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها أجاز له غير ذلک.
ابن رشد ،بدية المجتهد، 1 : 312
’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘
اِنفرادی اور اجتماعی نوعیت کے امور کا فرق
معتکف کے لئے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی متعدی یا اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے ۔ مثلاً درس و تدریس، علماء کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ ۔ تو ان امور کی مشروعیت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، مگر فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں معتکف کے لیے اِن اُمور کو شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔
1. ابن همام، فتح القدير،2 : 396
2. شافعي، الام، 2 : 105
3. نووی، المجموع، 6 : 528
4. ماوردى، الإقناع، 1 : 229
5. الفتاوی الهندية، 1 : 212
اعتکاف میں سرانجام دیے جانے والے اجتماعی اُمور
ذیل میں ہم اِس اَمر پر روشنی ڈالیں گے کہ وہ کون سے اِجتماعی اُمور ہیں جو اعتکاف میں سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔
اگر معتکف قاضی ہو یا فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور دوران اعتکاف اس کے سامنے کوئی ایسا معاملہ آجائے جس کی شہادت بھی موجود ہو تو اس پر لازم ہے کہ دوران اعتکاف ہی اس معاملے میں فیصلہ کر دے۔ امام شافعی الام میں لکھتے ہیں :
ولا بأس أن يقضى وإن کانت عنده شهادة، فدعی إليها فإنه يلزمه أن يجيب.
شافعی، الام 2 : 105
’’اور (معتکف کے لیے کسی معاملے کا) فیصلہ سنانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جب اس کی شہادت بھی موجود ہو۔ تو جب اُسے بلایا جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دعوت قبول کرے (اور اس پیش آمدہ مسئلے کا فیصلہ کرے)۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَه إِلَيَّ وَهوَ مُعْتَکِفٌ، أَغْسِلُه وَ أَنَا حَائِضٌ.
بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض، 1 : 115، الرقم : 295
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
علامہ خطابی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فإن الاشتغال بالعلم وکتابته اهم من تسريح الشعر.
زين الدين عراقی، طرح التثريب فی شرح التقريب، 4 : 175
’’بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جیسے اُمور بجا لانا بہتر ہے تاکہ اِسلام کے اُس آفاقی حکم پر بھی عمل ہو جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی وحی میں دیا گیا تھا اور جس کی بے پناہ تاکید قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں وارِد ہوئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں :
ولا بأس أن يشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما أحب ما لم يکن إثم.
شافعی، الام، 2 : 105
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
لہٰذا جب معتکف کاروبار کرسکتا ہے، حسبِ ضرورت کپڑے سی سکتا ہے تو اس کے لیے حصولِ علم تو بدرجہ اَولیٰ بہتر ہوگا۔ اور حصول علم وہ کارِ خیر ہے جس میں شرکت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ترجیح دی ہے۔ ایک مرتبہ جب مسجد نبوی میں محفلِ ذکر اور محفلِ علم برپا تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محفلِ علم کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں شرکت فرمائی۔
اِعتکاف میںحسبِ ضرورت خرید و فروخت اور لین دین بھی درست ہے، لیکن اِس میں شرط یہ ہے کہ معاملہ ایجاب و قبول کی حد تک ہو اور سامانِ تجارت مسجد سے باہر ہو۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اَشیاء کی نقل و حرکت کا ممنوع ہونا مسجد کے تقدس کی وجہ سے ہے نہ کہ اعتکاف کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں امام شافعی ’الأم‘ میں فرماتے ہیں :
1. کاسانی، بدائع الصنائع، 2 : 117
. نووی، المجموع، 6 : 533
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
شافعی، الام، 2 : 105
دورانِ اعتکاف حسبِ ضرورت خرید و فروخت سے متعلق امام کاسانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کرتے ہیں :
وروي عن على رضی الله عنه أنه قال لابن أخيه جعفر : هلا اشتريت خادما؟ قال : کنت معتکفا، قال : وماذا عليک لو اشتريت؟ . أشار إلی جواز الشراء في المسجد.
کاسانی، بدائع الصنائع، 2 : 117
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے کہ : تم نے خادم کیوں نہیں خریدا؟ انہوں نے جواب دیا : میں معتکف تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا حرج تھا اگر تم اسے خرید لیتے؟ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ (دورانِ اِعتکاف) مسجد میں بیع کرنے کے جواز کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
اس طرح باقی خرید و فروخت کامعاملہ ہے کہ جن میں زیادہ دیر نہ لگے وہ جائز ہیں کیوں کہ یہ سلام کے جواب اور چھینک کے جواب سے مشابہت رکھتے ہیں۔
زرکشی، شرح علی مختصر الخرقي، 3 : 17
اعتکاف کے ایک سال بعد آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں انسان ان تمام امور سے بے نیاز ہو جائے جن کا تعلق دوسرے افراد سے ہو یا جن میں اشتغال فی الخلق کا شائبہ ہو؛ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے بھی ہمیں جو نقوش ملتے ہیں ان میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورانِ اعتکاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملتے، انہیں حسبِ ضرورت وعظ و نصیحت فرماتے اور گھر والوں سے ملاقات کرتے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ أَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ.
بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض، 1 : 115، الرقم : 295
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
اس کے علاوہ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث بھی اس امر کی وضاحت کرتی ہے جسے علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں۔ جب گفتگو اور ملاقات کر کے واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا : جلدی نہ کرو، ٹھہرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں۔ اُن کا حجرہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انصار کے دو شخص ملے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کو بلا کر فرمایا :
تَعَالَيَا، إِنَّها صَفِيَةُ بِنْتُ حُيَيٍّ.
’’ادھر آؤ، یہ صفیہ بنت حیّی ہیں۔‘‘
دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ، سبحان اللہ!‘‘ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں ڈرا کہ مبادا وہ تمہارے دل میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔
بخاری، الصحیح، کتاب الاعتکاف، باب زیارۃ المراۃ زوجھا في الاعتکاف، 2 : 716، رقم : 1933
مذکورہ بالا حدیثِ اہل و عیال سے گفتگو کے علاوہ اعتکاف گاہ سے باہر حسبِ ضرورت اور حسبِ موقع امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عمل کو جاری رکھنے پر بھی دلالت ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ملاحظہ فرمایا کہ ممکن ہے انصاری صحابہ کے دل میں کوئی خیال جنم لے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی اس کا تدارک فرما دیا حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اعتکاف گاہ سے باہر تھے۔ اس تناظر میں اعتکاف گاہ کے اندر امر بالمعروف ونہی عن المنکر جو کہ سراسر ایک اجتماعی نوعیت کا عمل ہے، کو کس طرح منافی اعتکاف کہا جا سکتا ہے؟
شادی بیاہ ایسے اُمور ہیں جو معاشرے اور معاشرت کی بنیاد اور اجتماعیت کی اساس ہیں۔ معتکف اگرچہ ان تمام امور سے خلاصی پا کر مسجد میں گوشہ نشین ہوتا ہے لیکن ائمہ کرام نے دورانِ اعتکاف معتکف کے مسجد میں نکاح کرنے، محفل نکاح میں شامل ہونے، کسی کو اس کی دعوت دینے، نکاح وغیرہ پر مبارک باد دینے، تعزیت کرنے اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی جیسے امور کو بھی مباح قرار دیا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
ولا بأس للمعتکف أن يبيع ويشتري ويتزوج ويراجع ويلبس ويتطيب ويدهن ويأکل ويشرب بعد غروب الشمس إلی طلوع الفجر ويتحدث ما بدا له بعد أن لا يکون مأثما وينام في المسجد.
1. کاسانی، بدائع الصنائع، 2 : 117
2. نووی، المجموع، 6 : 533
’’معتکف کے لیے غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک خرید و فروخت ، نکاح، (اَسباق کی) مراجعت کرنے، لباس وغیرہ بدلنے، خوشبو اور تیل لگانے، کھانے پینے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں کوئی گناہ کی بات شامل نہ ہو، میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
اعتکاف کے دوران میں دیگر امور کی طرح ضروری حالت میں مریض کی عیادت کرنا بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :
کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَمُرُّ بِالْمَرِيْضِ وَهوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْه.
ابو داود، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2 : 333، رقم : 2472
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مریض کے پاس سے اعتکاف کی حالت میں گزرتے تو بغیر ٹھہرے گزرتے گزرتے اس کا حال دریافت فرما لیتے۔‘‘
اِمام ترمذی اس حدیث سے دورانِ اعتکاف مریض کی عیادت پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قَالَتْ : إِنْ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَهوَ مُعْتَکِفٌ.
ابو داود، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2 : 333، رقم : 2472
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مریض کی مزاج پرسی فرما لیا کرتے تھے۔‘‘
اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وت علم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
ابو داود، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 : 81، رقم : 222
’’ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشاء ہے نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔
ہماری اجتماعی صورتِ اَحوال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والی اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ. وَلٰکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
مالک، الموطأ، 2 : 991، رقم : 23
’’بے شک اﷲ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’اﷲ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے رب! ان میںتیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمای :
أَقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.
1. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 97، رقم : 7595
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 336، رقم : 7661
’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘
اس حدیث مباکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دل چسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔
خاموشی حکمت کا پیش خیمہ اور زبان کی حفاظت کا سب سے قوی اور آزمودہ ہتھیار ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں مگر خاموشی کو اس طرح افضل جاننا کہ واجب کلام بھی ترک کر دیا جائے، حرام کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خاموشی سے بہتر ہونے پر آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھوں اور اس دن کسی بھی کلام نہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمای :
لا تصم يوم الجمعة إلا في أيام هو أحدها أو في شهر، وأما أن لا تکلم أحداً فلعمري! لأن تکلم بمعروف وتنهي عن منکر خير من أن تسکت.
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 224، رقم :
22004
2. الطبرانی، المعجم الکبير، 2 : 44، رقم
: 1232
’’صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھو بلکہ اس طرح ایام کا انتخاب کرو کہ جمعہ کا دن ان میں آجائے یا پھر یہ کہ مہینے کے روزے ہوں تو جمعہ بھی ان میں آجائے۔ جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
گزشتہ سطور میں بیان کردہ تفصیل اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں اجتماعی اعتکاف کے جواز اور عدمِ جواز پر بحث جاری ہے وہیں اِجتماعی اعتکاف کی کئی مثالیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ وہ لوگ جو کچھ عرصہ قبل تک اسے بدعت قرار دیتے تھے اب خود اِس پر عمل پیرا ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندۂ مومن کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا شدہ فراست کے پیش نظر آنے والے حالات کو قبل اَز وقت بھانپ لیتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کو یہ شعور بعد میں نصیب ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل حقیقت سب پر آشکار ہو جاتی ہے۔
فی زمانہ حرمین شریفین میں دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے۔ ان مقاماتِ مقدسہ پر ہزارہا اہل اِسلام رمضان المبارک میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ اعتکاف کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے مگر خیمے وغیرہ نصب نہیں کیے جاتے اور نہ ہی چادریں وغیرہ تانی جاتی ہیں۔ اِس اِجتماعی اِعتکاف میں ہر وقت اِجتماعی درسِ قرآن اور درسِ حدیث بھی ہوتے ہیں، ہمہ وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور تجویدِ قرآن کے حلقات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ نیز دروسِ فقہ بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حرمِ کعبہ میں معتکفین طواف بھی کرتے ہیں جو کہ بھیڑ کے ماحول میں ہی ہوتا ہے۔ گویا جلوت میں خلوت کا ماحول ہوتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ پر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے درِ قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہارگانہ فرائض نبوت ۔ تلاوتِ قرآن؛ تزکیہ نفوس؛ تعلیم کتاب و حکمت ۔ کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن رسا میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا اظہار اِبتدائً تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں بھی ہوتا رہا۔ اعتکاف تو وہ ہر سال ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی گوشہ نشیں ہوئے۔ اِس سے ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب بغداد ٹاؤن میں موجود جامع المنہاج باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 50001 تھی۔ لیکن آج بفضلہ تعالی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں معتکف ہونے فرزندانِ اِسلام کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اِس میں مرد و زَن ہر دو ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں بیان کیے گئے معمولاتِ اِعتکاف کے مطابق اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہاے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں؛ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔