تعلق بالقرآن سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:64
تعلق بالقرآن سے کیا مراد ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

زمرہ: علومِ قرآن

جواب:

تعلق بالقرآن، قرآن کی تعلیمات کے برحق ہونے، ان پر عمل کرنے اور ان کے عملی نتائج کے سو فی صد درست ہونے پر پختہ اور کامل یقین رکھنے کو کہتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ.

(اے محبوب!) ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو ہر شے کا بیان کرنے والی ہے۔

النحل، 16 : 89

اس آیۃ کریمہ میں بنی نوع انسان کو یہ نکتہ سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہو جائے تو ہمیں قرآن میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و حکمت کے سوا دنیا کے کسی فلسفے سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام افکار و نظریات، فلسفے اور نظام بے کار، ناقص اور فرسودہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری زندگیاں سر قرآن کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائیں کہ ہم قرآن کے دیئے گئے ہر حکم کو جو قرآن کہے وہی مانیں اور جس سے قرآن روک دے اس سے رک جائیں، تبھی ہمارا تعلق قرآن سے قائم ہو سکے گا۔

یہ تمسکات ایمان کی تین بنیادیں ہیں جن کی استواری پر قرآن مجید نے ایمان کی حفاظت کا دار و مدار رکھا ہے۔ ہمارے ایمان کی حفاظت اس وقت ہو گی جب قرآن سے، ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ سے ہمارا تعلقِ ہدایت، تعلقِ غلامی اور تعلقِ بندگی نہایت ہی احسن طریق سے بحال ہو جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔