کیا شیعہ اور سنی کی مساجد الگ الگ ہونا ضروری ہے؟


سوال نمبر:6198
مفتی صاحب السلام علیکم! ہمارے گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے جو قیام پاکستان سے تعمیر شدہ ہے۔ جس میں اہل سنت اور اہل تشیع اثنا عشری دونوں مسالک کے لوگ ایک ہی امام کے پیچھے اپنے اپنے طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں۔ تقریباً بائیس سال سے عشرہ محرم الحرام کا انعقاد بھی ہوتا ہے جس میں دونوں مسالک اپنے اپنے عقیدے کے مطابق شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اسلامی تہوار اور ایام کے کے سلسلہ میں محافل کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جس میں دونوں مسالک شرکت کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سے اہل تشیع جمعہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ پہلے اہل سنت تین اذانیں پڑھتے تھے اور دو اذانہیں اہل تشیع پڑھتے تھے اور اب تین اذانیں اہل تشیع اور پانچ اذانیں اہل سنت دیتے ہیں۔ اس طرح عیدین کی نمازیں بھی دونوں مسالک اسی مسجد میں اپنے اپنے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ مسجد کی رجسٹریشن اہل سنت کے نام ہے دونوں مسالک سے جمع شدہ چندہ بھی اہل سنت کے پاس ہے۔ اور اہل سنت نے مسجد کو تعمیر نو کے لیے شہید کر دیا ہے جو کہ بارہ مرلہ پر مشتمل ہے۔ اب دونوں مسالک کے احباب نے چار لوگوں کو مقرر کیا ہے کہ مسجد کو دوبارہ اسی طرح تعمیر کیا جائے یا دو الگ الگ مسجدیں تعمیر کی جائیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائی جائے کہ مسجد کی تعمیر از سرنو کس طرح کی جائے؟

  • سائل: سید ساجد حسین کاظمی ایڈووکیٹمقام: کوٹ پھلے شاہ تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤالدین
  • تاریخ اشاعت: 21 اکتوبر 2024ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

آپ نے مسجد کی تعمیر نو کے حوالے سے جو تحریر بھیجی اور اس پر قرآن وحدیث کی روشنی میں راہنمائی کا تقاضا کیا ہے، اس سلسلہ میں آپ نے اہل علاقہ کی جو صورتِ حال بیان کی ہے وہ عین احکام الہٰی کی عکاس ہے اور فرمانِ رسول سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود مسلمان ایک جسم کی مانند ہونے چاہیئں جیسے جسم کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح کسی ایک مسلمان کی تکلیف تمام مسلمانوں کو محسوس کرنی چاہئے۔ فی الوقت بلا تفریق رنگ ونسل اور مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر صرف اسلام کے نام پر جمع ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آج امت مسلمہ فروعی اختلافات اور گروہی تعصّبات کی وجہ سے پارہ پارہ ہو چکی ہے جبکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَo وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَo

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘

(آل عمران، 3: 103)

اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کو دین حق مضبوطی سے تھام کر باہمی اتحاد واتفاق کی تلقین کی گئی ہے اور فرقہ پرستی وتفرقہ پروری اور انتشار سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اہل ایمان کو باہمی محبت وموّدت، اخوت ویگانگت، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کا حکم ہے۔ اور اپنے درمیان سے نفرت وقدورت، بغض وعناد، انتشار وافتراق، تشتّت اور نفاق جیسی برائیوں کا بیج بونے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ آپس میں جھگڑنے کی وجہ سے اجتماعیت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور بزدلی فروغ پاتی ہے اور قوت میں کمی آتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنے اور آپس میں جھگڑنے سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ درج آیات مبارکہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَo

’’بے شک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

(الأنعام، 6: 159)

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَo

’’اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

(الأنفال، 8: 46)

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اہل کتاب کے ساتھ مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دینے کا فرما کر معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے کی اعلیٰ ترین مثال قائم کر دی جو ہمارے لیے نمونہ حیات ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَo

’’آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اللہ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔‘‘

(آل عمران، 3: 64)

جب اہل کتاب کے ساتھ مشترکات پر جمع ہوا جا سکتا ہے تو پھر مسلمانوں کے آپس میں جمع ہونے میں کون سا امر مانع ہے؟ لہٰذا مسلمانوں کو فرمانِ رسول اللہ ﷺ کا مصداق ہونا چاہیئے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى.

’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کی باہمی محبت اور رحمت ومودت کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے خواب وبے آرام ہو جاتا ہے۔‘‘

(مسلم، الصحيح، كتاب البر والصلة والآداب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، ج: 4، ص: 1999، الرقم: 2586، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

لہٰذا جو شخص مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو پارہ پارہ کرے وہ مسلمانوں کی باہمی محبت کا دشمن ہے اور اس کے برے عمل سے مسلم معاشرہ رحمت ومودّت جیسی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ بہت بھیانک ہے کیونکہ بعض شریر اور فتنہ پروری کرنے والوں کے عمل سے جو لوگ اجتماعیت سے نکل جاتے ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے۔ حدیث مبارک میں ہے:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یا (فرمایا) امت محمد ﷺ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ اور اجتماعی وحدت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہےجو کوئی اس سے جدا ہو گا دوزخ میں جا گرے گا۔‘‘

(الترمذي، السنن، كتاب الفتن، باب ما جاء في لزوم الجماعة، ج: 4، ص: 466، الرقم: 2167، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

مذکورۃ الصدر احادیث مبارکہ اور دیگر بہت سی روایات میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی تفرقہ باز کی باتوں میں آئے بغیر آپ ﷺ کے فرامین پر عمل کرنا چاہیئے کیونکہ آپ ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ.

’’جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘

(النساء، 4: 80)

اور ایک طویل حدیث مبارک ہے جس کے آخر پر درج ذیل کلمات ہیں:

فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ.

’’جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی، گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘

(البخاري، الصحيح، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج: 6، ص: 2655، الرقم: 6852، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیئے اور آپس میں تقسیم در تقسیم ہونے کے بجائے باہمی محبت ومودت کا رشتہ پختہ کرنا چاہیئے اور اپنا تعلق حُبِّ رسول ﷺ کی بنیاد پر جوڑنا چاہیئے یہی اصل ایمان کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ لوگ دونوں مسالک کو جمع کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور مسلکی تفریق سے بالاتر ہو کر بطورِ مسلمان محبت وموّدتِ رسول ﷺ کی بنیاد پر آپس میں ایک ہونے کا درس دیں اور ایک ہی مسجد قائم کرکے ایک امام کی اقتدا میں سب کو باجماعت نماز پڑھنے پر قائل کریں تاکہ اتحاد بین المسلمین برقرار رہے۔ اسی میں امتِ مسلمہ کی بھلائی ہے۔ یہی کتاب وسنت کا تقاضا ہے اور یہی ادارہ منہاج القرآن کا بھی موقف ہے۔ مزید مطالعہ کے لیے حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟‘‘ کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری