جواب:
طلاق سکران کے وقوع اور عدمِ وقوع میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور یہی اختلاف ائمہ کے ہاں بھی موجود ہے۔ ائمہ احناف نشہ آور چیز سے خود نشہ کرنے کی صورت میں نشئی کی بیوی پر زجراً طلاق نافذ کرنے کے قائل ہیں جبکہ دھوکہ سے نشہ آور چیز کھلانے یا پلانے کی صورت میں نشہ آ جانے کی وجہ سے دی گئی طلاق کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔ مگر آج کے دور میں نشہ کی شرح جس قدر بڑھ چکی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ خود نشہ کرنے والے کی طلاق زجراً نافذ کرنے کا موقف اپنانے کی بجائے عدم وقوع طلاق کا موقف اپنایا جائے کیونکہ عقل زائل ہونے کی صورت میں طلاق کا نفاذ خلافِ قیاس ہے۔ احادیث مبارکہ میں کسی شخص کی عقل مغلوب ہو جانے کی وجہ سے طلاق کے عدم وقوع کا ثبوت ملتا ہے یعنی مدہوش کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، جیسا کہ درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ، إِلَّا طَلَاقَ المَعْتُوهِ المَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر غصہ غالب ہو۔‘‘
الترمذي، السنن، كتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء في طلاق المعتوه، 3: 496، الرقم: 1191، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول نقل کرتے ہیں:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مدہوش اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
البخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق والكره والسكران والمجنون، 5: 2018، بیروت، لبنان: دار ابن كثیر الیمامة
علامہ کاسانی نے پہلے بیان کیا ہے کہ عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء کے نزدیک سکران کی طلاق ہو جاتی ہے لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی، یہی موقف امام طحاوی، امام کرخی اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ہے سکران کی طلاق نہیں ہوتی۔ اس کے بعد علامہ کاسانی لکھتے ہیں:
إنَّ عَقْلَهُ زَائِلٌ وَالْعَقْلُ مِنْ شَرَائِطِ أَهْلِيَّةِ التَّصَرُّفِ لِمَا ذَكَرْنَا وَلِهَذَا لَا يَقَعُ طَلَاقُ الْمَجْنُونِ وَالصَّبِيِّ الَّذِي لَا يَعْقِلُ وَاَلَّذِي زَالَ عَقْلُهُ بِالْبَنْجِ وَالدَّوَاءِ كَذَا هَذَا وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَا تَصِحُّ رِدَّتُهُ فَلَأَنْ لَا يَصِحَّ طَلَاقُهُ أَوْلَى.
’’سکران کی عقل زائل ہوتی ہے اور عقل تصرف کی اہلیت کی ایک شرط ہے، اسی وجہ سے مجنوں اور غیر عاقل بچہ کی اور جس کی عقل بھنگ اور دوا سے زائل ہو گئی ہو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی تو اس کی بھی طلاق اسی طرح واقع نہیں ہو گی، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی ردت صحیح نہیں ہوتی تو بدرجہ اولی اس کی طلاق واقع نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
الكاساني، بدائع الصنائع، كتاب الطلاق، فصل وأما شرائط الركن، 3: 99، بيروت: دار الكتاب العربي
مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ نشہ کی وجہ سے مدہوشی کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے صورتِ مسئلہ میں اگر آپ نے بھی عقل پر نشہ کے غلبہ کی حالت میں طلاقیں دی ہیں اور نشے کا غلبہ ختم ہونے کے بعد ان طلاقوں کی تصدیق بھی نہیں کی تو اس صورت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی یعنی نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو حواس بحال ہونے پر برقرار نہیں رکھا تو نشہ میں دی ہوئی طلاقیں واقع نہیں ہوئیں، لہٰذا آپ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں لیکن آئندہ کے لیے اس قبیح حرکت سے باز رہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔