جواب:
اسلام کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہیں، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں شریعتِ اسلامیہ نے راہنمائی فراہم نہ کی ہو۔ ’لباس‘ انسانی زندگی کا اہم گوشہ اور رہن سہن کا ضروری پہلو ہے، اس لیے قرآن و سنت نے اس کے بارے میں بھی اصولی اور معتدل تعلیمات عطاء فرمائی ہیں اور اس سلسلے میں کچھ بنیادی اصول اور مقاصد مقرر کر دیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے کسی خاص وضع یا ہیئت کا لباس مقرر نہیں کیا کہ ہر شخص بس یہی لباس پہنے اور جو کوئی اس ہیئت اور صورت سے ہٹ کر پہنے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اسلام نے اس سلسلے میں اصولی راہنمائی کی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
الْأَعْرَاف، 7 : 26
اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لباس کے تین مقاصد بیان فرمائے ہیں:
مفسرین نے اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں کہا ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضاء مثل ننگے کے نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بیجا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ.
النَّحْل، 16 : 81
اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں لباس کی چوتھی مصلحت بیان ہوئی ہے کہ لباس موسم کی شدت سے انسان کو محفوظ رکھنے والا ہونا چاہیے۔
صاحب حیثیت انسان کا اچھے کپڑے پہننا شرعاً پسندیدہ عمل بلکہ جس شخص کی آمدنی اچھی ہو ،اس کے لیے خراب قسم کا کپڑا اور گھٹیا قسم کا لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دور کے عرب کلچر کے مطابق بہترین لباس زیب تن فرمائے اور اسی بات کا صحابہ کرام کو درس بھی دیا۔ چنانچہ حضرت ابو الاحوص عوف بن مالک الجشمی فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ انہوں نے گھٹیا قسم کپڑے پہنے ہوئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے اُن سے پوچھا:
أَلَكَ مَالٌ ؟قَالَ: نَعَمْ. قَالَ مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ قَالَ فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ.
ابی داؤد، السنن، كِتَابُ اللِّبَاسِ، بَابٌ فِي غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِي الْخُلْقَانِ، رقم الحدیث: 4063
کیا تمہارے پاس مال ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کے انعامات کا کچھ اثر تمہارے لباس سے بھی ظاہر ہونا چاہیے۔
شارحینِ حدیث نے اس حدیثِ مبارکہ سے اخذ کیا ہے کہ انسان کا اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس پہننا مستحب اور اظہارِ شکر کا ایک ذریعہ ہے۔ مگر اس سلسلے میں نمائش اور دکھاوا جائز نہیں، بلکہ حرام ہے۔ آیات و روایت سے لباس سے متعلق شرعی اصولوں کا خلاصہ درج ذیل چار اصول ہیں:
اسی طرح لباس کے تین عیب ہیں جو لباس کے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، درج ذیل ہیں:
فلھٰذا ہر انسان کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ موسم کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ نیز جس سے تہذیب نفس ، سلیقے و قرینے ، عزت و شرافت اور زینت و جمال کے ساتھ وقار انسانیت اور احترام آدمیت کا بھی اظہار ہو۔ اسلام ایسی سادگی کا حکم نہیں دیتا جس سے زمانے کے تقاضے پورے نہ ہوسکیں۔ سائل نے واضح نہیں کیا کہ اسلامی لباس سے ان کی کیا مراد ہے؟ وہ کس لباس کو اسلامی اور کس کو غیراسلامی کہہ رہے ہیں! یاد رکھیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو لباس کی کسی خاص کیفیت اور وضع کا پابند نہیں کیا، بلکہ اس کے مذکوہ بالا اصول، حدود اور مقاصد طے کرکے اسے ہر علاقہ اور ملک کے لوگوں کے مزاج اورضرورت پہ چھوڑ دیا ہے ۔ ان متعین حدود کی رعایت رکھتے ہوئے جو لباس بھی زیب تن کیا جائے وہ اسلامی و شرعی لباس ہی کہلائے گا۔ اس لیے مذکورہ بالا تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سائل کے بھائی جو بھی لباس پہنیں گے وہ شرعاً جائز ہے، اس لیے انہیں کسی خاص لباس کو اپنی ضد نہیں بنانا چاہیے۔ اگر وہ اپنی ضد کی وجہ سے کسی ملازمت یا منفعت سے محروم ہو رہے ہیں وہ سماج یا اسلام کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔