جواب:
نماز جنازہ ایک دعا ہے دوبارہ پڑھ بھی لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں نماز جنازہ دوبارہ پڑھنے کی ممانعت پر کوئی ایک بھی نص وارد نہیں ہوئی ہے کہ جس کی بنیاد پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز کہا جائے بلکہ صحیح احادیث مبارکہ میں دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت ضرور ملتا ہے۔ جیسا کہ درج احادیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِيَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى، وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن نجاشی کا انتقال ہوا، رسول الله ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کے انتقال کی خبر دی، پھر آپ عیدگاہ گئے اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھائی۔‘‘
مسلم، الصحيح، كتاب الجنائز، باب في التكبير على الجنازة، 2: 656، الرقم: 951، بيروت: دار حياء التراث العربي
اس حدیث مبارکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض علماء کرام نے رسول اللہ ﷺ کے اس فعل کو صلاۃ لغوی قرار دیا ہے جبکہ چار تکبیرات سے واضح ہے کہ آپ ﷺ نے نماز جنازہ ادا فرمائی۔ اور بعض علماء کرام نے آپ ﷺ کی خصوصیت قرار دیا ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی کیونکہ کسی ایک روایت میں بھی آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ عمل صرف میرے لیے خاص ہے اور نہ کسی روایت میں اس کی ممانعت ملتی ہے۔ اور نہ ہی کوئی ایسی راویت ملتی ہے کہ حبشہ میں نجاشی کا نماز جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے دوسرے مقام پر نجاشی کا دوبارہ نماز جنازہ پڑھایااور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پڑھا کیونکہ دیگر روایات میں صفیں باندھنے کا بھی ذکر ہے۔ بعض احادیث مبارکہ میں قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ملتا ہے جبکہ ان کو نماز جنازہ پڑھ کر دفنایا گیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِقَبْرٍ قَدْ دُفِنَ لَيْلًا، فَقَالَ: «مَتَى دُفِنَ هَذَا؟» قَالُوا: البَارِحَةَ، قَالَ: «أَفَلاَ آذَنْتُمُونِي؟» قَالُوا: دَفَنَّاهُ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ فَكَرِهْنَا أَنْ نُوقِظَكَ، فَقَامَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَا فِيهِمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس کو اسی رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اِس کو کب دفن کیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ گزشتہ رات۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں بتایا؟ عرض گزار ہوئے کہ ہم نے اندھیری رات میں دفن کیا اور نا پسند کیا کہ آپ کو جگائیں۔ آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو ہم نے پیچھے صفیں بنا لیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ میں انہی میں تھا اور اس پر نماز پڑھی۔‘‘
البخاري، الصحيح، كتاب الجنائز، باب صفوف الصبيان مع الرجال على الجنائز، 1: 444، الرقم: 1258، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے نماز جنازہ پڑھ کر اس شخص کو دفن کر دیا تھا لیکن آپ ﷺ نے اس کی قبر پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے بھی آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پہلے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی تھی انہوں نے دوبارہ نہیں پڑھی کسی روایت میں ایسا کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث مبارکہ ہے جو درج ذیل ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ فَقَالُوا: مَاتَ، قَالَ: «أَفَلَا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي» قَالَ: فَكَأَنَّهُمْ صَغَّرُوا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَهُ فَقَالَ: «دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ» فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوءَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ».
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا حبشی جوان مسجد کی صفائی کرتا تھا، رسول الله ﷺ نے اُس کو نہیں دیکھا تو اس کے متعلق پوچھا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا وہ فوت ہو گیا! آپ ﷺ نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہیں خبر دی؟ راوی کہتے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اس معاملے کو معمولی سمجھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ قبریں اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور مری نماز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان قبروں کو روشن کر دیتا ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، كتاب الجنائز، باب الصلاة على القبر، 2: 659، الرقم: 956، بيروت: دار إحياء التراث العربي
عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی رضی اللہ عنہ اپنی المصنف میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حنش بن المعتمر نے بیان کیا:
جَاءَ نَاسٌ مِنْ بَعْدِ أَنْ صَلَّى (عَلِيٌّ) عَلَى سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ فَأَمَرَ عَلِيٌّ قَرَظَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَنْ يَؤُمَّهُمْ (وَيُصَلِّيَ) عَلَيْهِ بَعْدَ مَا دُفِنَ.
’’حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھی گئی، کچھ لوگ بعد میں حاضر ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرظۃ الانصاری کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی امامت کروائیں اور نماز جنازہ ادا کریں۔ یہ سب ان کے دفن ہونے کے بعد ہوا۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، كتاب الجنائز، باب الصلاة على الميت بعد ما يدفن، 3: 519، الرقم، 6543.بيروت: المكتب الإسلامي
ان روایات کو منسوخ کرنے والی کوئی روایت نہیں ہے اور نہ ہی کسی روایت میں آپ ﷺ کا کوئی فرمان پایا جاتا ہے کہ یہ عمل صرف میرے لیے خاص ہے۔ اور نہ کسی آیت میں ممانعت کی کوئی دلیل ملتی ہے۔ یہ احناف کا موقف ہے جبکہ ایک تاریخی روایت ملتی ہے جس کے مطابق امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ متعدد بار پڑھائی گئی تھی۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے:
يَوْمِ مَاتَ أَبُو حَنِيفَةَ صَلَّى عَلَيْهِ سِتُّ مِرَارٍ مِنْ كَثْرَةِ الزِّحَامِ آخِرِهِم صَلَّى عَلَيْهِ ابْنَةُ حَمَّادٍ وَغَسْلُهُ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ.
’’حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن بہت زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے آپ کی نماز جنازہ چھ بار پڑھی گئی۔ آخری مرتبہ آپ کے بیٹے حماد نے پڑھائی۔ حسن بن عمارہ اور ایک دوسرے آدمی نے آپ رضی اللہ عنہ کو غسل دیا۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات سے کسی شخص کا جنازہ دوبارہ ادا کرنے کا جواز ملتا ہے۔ اور یہ روایات دو الگ الگ مقامات پر جنازہ ادا کرنے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ نجاشی کا جنازہ دو الگ الگ مقامات پر ہوا پھر قبر پر جنازہ ادا کرنا بھی دوسرے مقام پر جنازہ ادا کرنا ہے۔ ایک سے زائد مرتبہ جنازہ ادا کرنا بھی ان روایات سے ثابت ہے۔ لہٰذا دوبارہ جنازہ ادا کرنا جائز ہے اور دوسرے مقام پر جنازہ میں رشتہ داروں کا شریک ہونا بھی منع نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔