کیا عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے؟ خواتین کی آواز میں حمد و نعت یا درس سننا کیسا ہے؟


سوال نمبر:6172
السلام علیکم! محترم مفتی صاحب ایک اہم سوال کا جواب مدلل درکار ہے کہ آج کل دینی تعلیمات رکھنے والی ہماری بیٹیاں، بہنیں اور مائیں ٹی وی پروگزامز، تعلیمی وتربیتی کا نفرنسز اور محافل میلاد میں خطابات کرتی ہیں جو وقت کی اشد ضرورت بھی ہے۔ بعض اوقات بڑے اجتماعات میں لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بعض لوگ باپردہ عورتوں کے لاؤڈ اسپیکر یا ریڈیو ٹی وی پر حمد ونعت پڑھنے اور دینی تعلیمات دینے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں شرعی حکم کی وضاحت فرما دیں۔

  • سائل: حافظ قاسم مدنیمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 17 مئی 2023ء

زمرہ: پردہ و حجاب اور لباس

جواب:

شریعتِ اسلامی میں عورت کو غیر محارم سے پردے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے پردے میں ہی رہنا چاہیے، جب کبھی باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو اسے مکمل شرعی پردے میں ہی نکلنا چاہیے۔ شرعی پردہ کے مطابق جن اعضاء کو چھپانے کا حکم ہے، اُن کو چھپا کر یا پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر عورت کو غیر محرم کے ساتھ ضروری بات کرنے کی اجازت نصِ شرعی سے ثابت ہے، صرف نرم لہجہ اپنانے کی ممانعت ہے۔ راجح قول کے مطابق عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ فقہاء کرام نے اسے فتنہ کے اندیشے کے سبب خلاف اختیار قرار دیا ہے۔ جب کہ عورتوں کے غیر محرم مردوں کے سامنے دین سیکھنے اور سکھانے کی متعدد مثالیں قرآن وحدیث اور آثار صحابہ سے ملتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا.

”اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔“

الْأَحْزَاب، 33: 32

درجہ بالا آیت میں امہات المؤمنین کو بالخصوص اور مسلم خواتین کو بالعموم غیرمحرم مردوں سے بدن کا پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سے نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا ہے لیکن صاف اور سیدھی بات کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ عورت کی آواز پردے میں شامل نہیں ہے۔ عورت کی آواز بھی اگر پردے کا حصہ ہوتی تو سیدھی اور صاف بات کرنے کی اجازت نہ دی جاتی بلکہ پوری طرح منع کر دیا جاتا یعنی جس طرح اعضائے پردہ کو چھپانے کا حکم ہے اسی طرح آواز کو چھپانے کا حکم دیا جاتا جبکہ ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔

(2) دوسرے مقام پر اَزواج مطہرات سے سوال کرنے کے بارے میں ارشادِ باری ہے:

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ.

”اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لیے اور ان کے دلوں کے لیے بڑی طہارت کا سبب ہے۔“

الْأَحْزَاب، 33: 53

اس آیت مبارکہ میں غیر محارم کے ساتھ پردے کے پیچھے سے ضروری بات کرنے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک مجلس میں خواتین آتی تھیں اور مردوں کی موجودگی میں سوالات کرتی تھیں اور آپ ﷺ انہیں جواب دیتے۔ آپ ﷺ نے کبھی عورتوں کو سوال پوچھنے سے منع نہيں فرمایا اور نہ مردوں سے یہ کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی آواز پردے کا حصہ نہیں ہے۔

(3) قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے لین دین کے معاملات طے کرتے وقت معاہدہ لکھنے اور اس پر گواہ بنانے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر گواہوں میں دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى.

’’اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لیے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے۔‘‘

البقرة، 2: 282

اس آیت مبارکہ سے عورت کی گواہی ثابت ہے، گواہ اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ کوئی اپنے معاہدہ سے نہ پھرے، اگر کوئی معاہدہ سے پھر جائے تو معاملہ عدالت میں جاتا ہے یا کسی جرگہ میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو شرعاً ان معاملات میں عورت گواہ بنانے کی کبھی بھی اجازت نہ ہوتی کیوں کہ معاملہ بگڑ جانے کی صورت جرگہ یا عدالت میں پیش ہو کر گواہی دینا ہوتی ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں کسی مقام پر بھی یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ گواہی صرف محرم کے سامنے لی جائے گی یا گواہی دینے کے لیے عورت کسی غیر محرم کے سامنے نہ بولے، کہیں بھی شرعاً ایسی پابندی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ آیت مبارکہ بھی عورت کی آواز کا پردہ نہ ہونے پر دلیل ہے۔

(4) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ، وَالفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.

”قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ سے اس وقت مسئلہ دریافت کیا جبکہ آپ ﷺ سواری پر تھے اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ وہ عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! یہ (حج) اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے لیکن میرے والد محترم اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں کہ وہ سواری پر اچھی طرح بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ دریں حالات کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں۔ آپ (ﷺ) نے جواباً فرمایا، ہاں کرسکتی ہو۔“

  1. البخاري، الصحيح، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، ج/4، ص/1598، الرقم/4138، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. النسائي، السنن الكبرى، كتاب الحج، باب حج المرأة عن الرجل، ج/2،ص/325، الرقم/3622، بيروت: دار الكتب العلمية

اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے چچا زاد حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے کہ عورت نے آپ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا۔

(5) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:

قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ: مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلاَثَةً مِنْ وَلَدِهَا، إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ. فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَتَيْنِ؟ فَقَالَ: وَاثْنَتَيْنِ.

”عورتیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ (ﷺ) کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے۔ لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے ایک روز کا وعدہ فرما لیا۔ چنانچہ مقررہ دن ان سے ملے، نصیحت فرمائی اور اوامر بتائے، ان کے ساتھ ہی ان سے فرمایا: تم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے تین بچے آگے بھیجے مگر وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ ہو جائیں گے۔ ایک عورت عرض گزار ہوئی کہ دو بچے؟ فرمایا کہ دو بچے بھی۔“

  1. البخاري، الصحيح، كتاب العلم، باب هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج/1، ص/50، الرقم/101
  2. أحمد بن حنبل، المسند، ج/3، ص/34، الرقم/11314
  3. ابن حبان، الصحيح،ج/3، ص/206، الرقم/2944، بيروت: مؤسسة الرسالة

اس حديث كو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کر رہے ہیں کہ جنہوں نے عورتوں کی عرض کو سنا کہ انہوں نے آپ ﷺ سے الگ وقت لیا اور پھر اس مجلس میں بھی موجود تھے کہ جب عورتوں نے آپ ﷺ سے سوال وجواب کئے اسی لیے وہ تمام احوال روایت کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ بارگاہ نبوی ﷺ کا ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی آواز پردے کا حصہ نہیں ہے۔

(6) حضرت قیس بن ابوحازم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جس کا نام زینب بنتِ مہاجر احمسیّہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ کلام نہیں کرتی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اسے کیا ہوا جو بولتی نہیں لوگوں نے بتایا کہ اس نے خاموشی کے حج کی نیت کی ہوئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ بات کرو کیونکہ ایسا کرنا جائز نہیں بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کا عمل ہے۔ (اس کے بعد اس عورت نے خلیفۃ المسلمین کے ساتھ گفتگو شروع کر دی)

فَتَكَلَّمَتْ، فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: امْرُؤٌ مِنَ المُهَاجِرِينَ، قَالَتْ: أَيُّ المُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ، أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ، قَالَتْ: وَمَا الأَئِمَّةُ؟ قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ، يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ.

’’پھر وہ عورت بول پڑی اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں مہاجرین میں سے ایک آدمی ہوں۔ وہ عورت کہنے لگی، کون سے مہاجرین؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قریش سے، اس نے پوچھا: آپ کون سے قریش میں سے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اری سوالات کی گٹھڑی! میں ابوبکر ہوں۔ کہنے لگی کہ اس نیک کام پر جو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کے بعد ہمارے پاس بھیجا ہے ہم کب تک قائم رہیں گے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تک تمہارے پیشوا قائم رہیں گے۔ وہ کہنے لگی، ہمارے پیشوا کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہاری قوم میں ایسے رئیس اور معزز لوگ تو ہوں گے کہ جن باتوں کا تمہیں حکم دیں ان پر خود بھی عمل کریں؟ اس (عورت) نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس وہی لوگ تمہارے پیشوا ہیں۔‘‘

البخاري، الصحيح، باب فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم ورضي الله عنهم، باب أيام الجاهلية، ج/3، ص/1393، الرقم/3622

اس روایت کے مطابق عورت اجنبی ہے جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہیں جانتی اور نہ آپ رضی اللہ عنہ اسے جانتے ہیں لیکن آپس میں طویل گفتگو ہو رہی ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کے ذریعہ اس عورت سے معلومات حاصل کرتے جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ وہاں موجود تھیں۔

(7) ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم چالیس (40) اوقیہ سے زائد مہر مقرر نہ کرو اور جس نے زیادہ مقرر کیا تو وہ زائد بیت المال میں ڈالا جائےگا۔ تو ایک عورت نے کہا: اے امیرالمؤمنین آپ کو اس کا اختیار نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں؟ تو اس نے کہا: اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاٰتَيْتُمْ اِحْدٰھُنَّ قِنْطَارًا﴾ [النساء، 4: 20] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےفرمایا:

امْرَأَةٌ أَصَابَتْ وَرَجُلٌ أَخْطَأَ.

”عورت نے درست بات کہی اور مرد نے خطا کی۔‘‘

  1. قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، ج/5، ص/99، القاهرة: دار الشعب
  2. ابن كثير، تفسير القرآن العظيم، ج/1، ص/468، بيروت: دار الفكر
  3. علي بن سلطان محمد القاري، مرقات المفاتيح، ج/6، ص/330، دار الکتب العلمية بيروت

اس واقعہ کو بہت سے مفسرین، شارحین حدیث اور مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں عورت کا سوال وجواب کرنا بھی عورت کی آواز کا پردہ نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں عورت کبھی بھی آواز اٹھانے کی جرأت نہ کرتی۔

(8) حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے شفاء بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کی نگران مقرر کیا تھا۔ وہ قضاء الحسبہ (Accountability Court) اور قضاء سوق (Market Administration) کی ذمہ دار تھیں۔ شفاء بڑی سمجھدار اور باصلاحیت خاتون تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کی رائے کو مقدم رکھتے تھے اور پسند فرمایا کرتے تھے اور دوسروں پر فضیلت دیتے تھے۔

ابن حزم، المحلى، ج/9، ص/429، بيروت: دار الآفاق الجديدة

ان پر یہ ذمہ داری صرف عورتوں تک محدود نہ تھی بازار میں ان کا واسطہ مردوں سے بھی پڑتا تھا، لہٰذا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی آواز شرعی پردے میں شامل نہیں ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول ایک خاتون کو اس منصب پر فائز نہ کرتے کہ جن کی تمنا اور خواہش سے آیت حجاب نازل ہوئی تھی۔

(9) رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں عورتیں، آپ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتی تھیں اور مردوں کی موجودگی میں وہ آپ ﷺ سے مختلف سوالات بھی کیا کرتی تھیں۔ بعض اوقات اپنے حقوق کے لیے طویل گفتگو بھی کرتیں تھیں جیسا کہ اسماء بنتِ زید بن سکن، انصاریہ ایک موقع پر دوسری عورتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے، بارگاہ مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کی بھی یہی رائے ہے جو میری ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب مرد وخواتین کی طرف مبعوث فرمایا ہے، سو ہم آپ (ﷺ) پر ایمان لائیں اور آپ (ﷺ) کی اتباع کی۔ ہم عورتیں گھروں میں بند بیٹھی رہتی ہیں۔ عورتیں، مردوں کی شہوت رانی کا ذریعہ ہیں اور ان کی اولاد کی حاملہ ہیں۔ اور مرد جمعہ، جنازوں اور جہاد میں شامل ہونے کی وجہ سے افضل ہو گئے ہیں۔ جب وہ جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو ہم ان کے اموال کی حفاظت اور بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اجر وثواب میں ان کے ساتھ شریک ہو سکتی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے چہرہ مبارک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف کیا اور فرمایا:

هَلْ سَمِعْتُمْ مَقَالَةُ امْرَأَةِ أَحْسَنُ سُؤَالًا عَنْ دِينِهَا مِنْ هَذِهِ فَقَالُوا بَلَى وَاَللهِ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفي يَا أَسَمَاءُ وأعْلَمِي مِنْ وَرَائِكَ مِنْ النِّسَاءِ أَنْ حُسْنَ تَبْعَل إحْدَاكُنّ لِزَوْجِهَا وَطَلَبُهَا لِمَرْضَاتِه وَاتِّبَاعَهَا لِمُوَافَقَتِه يَعْدِل كُلُّ مَا ذَكَرْت لِلرِّجَال فَانْصَرَفَت أَسْمَاء وَهِي تَهَلَّل وَتَكَبَّر اسْتِبْشَارًا بِمَا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

’’کیا تم لوگوں نے کسی عورت کو اپنے دین کے متعلق اس عورت سے زیادہ بہتر انداز میں سوال کرتے سنا ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا : یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم! ہم نے نہیں سنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسماء جاؤ! اپنے قبیلہ کی بقیہ عورتوں کو یہ باتیں سیکھاؤ اور سناؤ۔ اگر وہ اپنے شوہروں کے لیے اچھی جوڑی ثابت ہوتی ہیں، ان کی رضامندی، پیروی اور موافقت میں معروف رہتی ہیں تو مردوں کی جتنی خصوصیات آپ نے بیان کی ہیں ان میں برابر شامل ہو جائیں گی۔ اسماء لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اور جو آپ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے تبصرہ کیا اس کے بارے میں خوشی مناتی ہوئی واپس گئیں۔‘‘

  1. ابن عبد البر، الإستيعاب في معرفة الأصحاب، ج/4، ص/1787، الرقم: 3233، بيروت: دار الجيل
  2. السيوطي، الدر المثور، ج/2، ص/218م بيروت: دار الفكر

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت، عورتوں کے حقوق اور تبلیغ دین کی خاطر غیر محارم کے سامنے بھی آواز بلند کر سکتی ہے کیونکہ حضرت اسماء انصاریہ نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے گفتگو کی تو آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ خراج تحسین پیش کیا اور انہیں بقیہ عورتوں کو یہی باتیں سنانے اور سیکھانے کی ترغیب دی۔ پھر انہوں (حضرت اسماء) نے خوشی میں کلمہ طیبہ اور نعرہ تکبیر بلند کیا تو آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اگر عورت کی آواز پردہ میں شامل ہوتی تو حضور اکرم ﷺ عورت کے غیر محارم کے سامنے آواز بلند کرنے پر کبھی بھی اس کی حوصلہ افزائی نہ فرماتے۔

(10) حضرت سمراء بنت نہیک اسدیہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کا مبارک زمانہ پایا تھا اور کافی عمر رسیدہ تھیں۔ وہ جب بازاروں سے گزرتیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی تھیں۔ ان کے پاس ایک کوڑا تھا جس سے ان لوگوں کو مارتی تھیں جو کسی برے کام میں مشغول ہوتے تھے۔

ابن عبد البر، الاستيعاب، ج/4، ص/1863، الرقم/3386

ایک صحابیہ کا بازاروں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ میں شامل ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کی صحابیہ کبھی بھی یہ عمل سرانجام نہ دیتیں اور انہیں منع کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا، لہٰذا یہ ایک بہت پختہ دلیل ہے کہ دعوت وتبلیغ دین کے لیے عورت ہر جگہ آواز بلند کر سکتی کیونکہ ممانعت پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی جبکہ جواز کی کئی نظائر ملتی ہیں۔

(11) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ملکہ روم کے دربار میں سفارتی مشن پر بھیجا جیسا کہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ الامم والملوک میں نقل کیا ہے:

وبَعَثَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى مَلِكَةِ الرُّومِ بِطِيبٍ وَمَشَارِبَ وَأَحْفَاشٍ مِنْ أَحْفَاشِ النِّسَاءِ... وَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِرَقْل، وَجَمَعَتْ نِسَاءَهَا، وَقَالَتْ: هَذِهِ هَدِيَّةُ امْرَأَةِ مَلِكِ الْعَرَبِ، وَبِنْتِ نَبِيِّهِمْ.

”حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما کو روم کی ملکہ کی طرف خوشبو، مشروبات اور عورتوں کے سامان رکھنے کے صندوقچے دے کر بھیجا گیا۔ آپ کے استقبال کے لیے ہرقل کی زوجہ آئی اور اس نے (روم کی) خواتین کو جمع کیا اور کہا: یہ تحفے عرب کے بادشاہ کی بیوی اور ان کے نبی کی بیٹی لے کرآئی ہیں۔“

الطبري، تاريخ الأمم والملوك، ج/2، ص/601، بيروت: دار الكتب العلمية

سفارتی معاملات میں عورت کو مردوں کے ساتھ سفر کرنے اور ان سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، شرعاً اگر باپردہ رہتے ہوئے عورت یہ ذمہ داری نبھائے تو خلافت راشدہ سے اس کی مثال ملتی ہے۔ اگر عورت کی آواز پردہ میں شامل ہوتی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی عورت کو اس منصب پر کبھی فائز نہ کرتے۔

(12) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت کی انصاری مرد سے شادی ہوگئی۔ اس مو قع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے شادی کے گیت گانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں کہ:

كَانَ فِي حِجْرِي جَارِيَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَزَوَّجْتُهَا، قَالَتْ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عُرْسِهَا، فَلَمْ يَسْمَعْ غِنَاءً وَلَا لَعِبًا، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، هَلْ غَنَّيْتُمْ عَلَيْهَا؟ أَوَ لَا تُغَنُّونَ عَلَيْهَا؟ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنَ الْأَنْصَارِ يُحِبُّونَ الْغِنَاءَ.

”میرے پاس ایک انصاری لڑکی رہا کرتی تھی، میں نے اس کی شادی کروائی۔ وہ فرما تی ہیں : حضور نبی کریم ﷺ اُس کی شادی کے روز میرے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کوئی نغمہ سنا نہ کوئی تفریح دیکھی۔ اِس پر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : اے عائشہ! تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام کر چکی ہو؟ یا فرمایا : کیا تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام نہیں کرو گی؟۔ پھر فرمایا : یہ اَنصاری قبیلہ ایسے مواقع پر ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتا ہے۔“

ابن حبان، الصحیح، ج/13، ص/185، الرقم/5875

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے قریبی ایک انصاری لڑکی کی شادی کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور پوچھا : کیا تم نے دلہن کو تیار کرلیا ہے؟ انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے مزید دریافت فرمایا:

أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي، قَالَتْ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ.

”کیا تم نے شادی کا گیت سنانے کے لیے کسی کا بندوبست کیا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے نفی میں جواب دیا، تو اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : اَنصار لوگ ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتے ہیں، بہتر ہے کہ تم کسی خوش آواز کا انتظام کرو جو یہ کہے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو عمر دراز عطا فرمائے۔“

  1. ابن ماجه، السنن، كتاب النكاح، باب الغناء والدف، ج/1، ص/612، الرقم/1900
  2. النسائي، السنن الكبرى، ج/3، ص/332، الرقم/5566

ان احادیث سے عورت کے ترنم کے ساتھ گانے کا ثبوت ملتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ دریافت فرما رہے ہیں کہ کسی گانے والی کا بندوبست کیا ہے کہ نہیں؟ مقصد ہے کہ کلام فحش نہ ہو اورنہ ہی شرکیہ کلام ہو تو اسے ترنم کے ساتھ پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

(13) حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں حضرت سراقہ کے قبول اسلام سے پہلے گھوڑا زمین میں دھسنے کا واقعہ ہے اور قباء سے مدینہ منورہ پہنچنے کا ذکر ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپس میں بحث کرنا کہ حضور ﷺ کس کے پاس ٹھہریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَنْزِلُ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ، أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أُكْرِمُهُمْ بِذَلِكَ، فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ، وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ، يُنَادُونَ: يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ.

”میں بنو نجار کے پاس ٹھہروں گا جو عبدالمطلب کے ماموں ہیں، میں اپنے قیام سے ان کی عزت افزائی کروں گا، پھر تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے مکانوں پر چڑھ گئے اور لڑکے اور غلام راستوں میں پھیل گئے، وہ سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد یا رسول اللہ! یا محمد یا رسول اللہ!“

مسلم، الصحيح، كتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، ويقال له: حديث الرَّحْل، ج/4، ص/2310-2311، الرقم/2009، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس موضوع پر امام حاکم نے جو روایت نقل کی ہے، اس میں الفاظ مختلف ہیں۔ امام حاکم کی المستدرک کے الفاظ یہ ہیں:

عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: وَمَضَى رَسُوْلُ اللهِ صَلَى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِيْنَةِ، وَخَرَجَ النَّاسُ حَتَّى دَخَلَنَا فِي الطَّرِيْقِ، وَصَاحَ النِّسَاءُ وَالْخُدَّامُ وَالْغِلْمَانُ، جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ، جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ انْطَلَقَ فَنَزَلَ حَيْثُ أُمِرَ.

”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ پہنچ گئے تو لوگ (اپنے گھروں سے) باہر نکل آئے، حتیٰ کہ ہم گلی میں داخل ہوئے تو عورتیں، خدام اور لڑکے سب زور زور سے یہ کہہ رہے تھے: اللہ اکبر! محمد رسول اللہ تشریف لے آئے ہیں، محمد رسول اللہ تشریف لے آئے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ روانہ ہوئے حتیٰ کہ جہاں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم ہوا وہاں آپ ﷺ نے قیام فرمایا۔“

الحاكم، المستدرك على الصحيحين، ج/3، ص/14، الرقم/4282، دار الكتب العلمية

ان روایات سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں نے آپ ﷺ کی تشریف آوری پر خوشی منائی، نعرے لگائے اور نعت پڑھی لیکن آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ اس سے پہلے قباء میں آپ ﷺ کا استقبال ہوا اور پھر بعض مواقع پر بچیوں نے آپ ﷺ کے سامنے دف کے ساتھ اشعار پڑھے اور منع نہیں کیا گیا بلکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منع کرنے کی کوشش کی مگر آپ ﷺ نے انہیں جاری رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عورت کی آواز غیر محارم کے سامنے کسی نیک مقصد اور اشاعت وترویجِ دین کے لیے بلند ہو تو کوئی حرج نہیں ہے جبکہ عورت کی آواز، عورتوں کی مجالس میں دین اسلام کی سربلندی، ترویج واشاعت، حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ کے لیے بلند ہو تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اہلِ ایمان مردوں کی طرح اہلِ ایمان عورتوں کو بھی حکم دیا ہے کہ اچھی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں، لہٰذا یہ دونوں کو حکم بھی ہے اور دونوں کی ضرورت بھی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌo

”اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔“

التوبة، 9: 71

جس طرح صدرِ اوّل میں ہزاروں صحابیات نے احادیثِ مبارکہ روایت کیں، اُمہات المؤمنین اور دیگر صحابیات جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا،  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا،  حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا،  حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما،  حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا،  حضرت اُمِّ عمارہ رضی اللہ عنہا،  حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا،  حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا،  حضرت فاطمہ بنتِ خطاب رضی اللہ عنہا،  حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا،  کے نام سر فہرست ہیں۔ تمام رواۃ صحابیات کے نام یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہیں تاہم ہزاروں صحابیات نے فریضہ دعوت وتبلیغ دین سرانجام دیا لیکن قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان صحابیات کو روایت کرنے یا تبلیغ دین سے منع نہیں کیا گیا حالانکہ انہوں نے غیر محارم کو بھی احایث روایت کیں، منع اس لیے نہیں کیا گیا کہ مذکورہ بالا حکم باری تعالیٰ مرد وخواتین دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے دورِ حاضر میں بھی ضروری ہے کہ صدرِ اوّل کی طرح عورتوں کو دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے میدانِ عمل میں اتارا جائے کیونکہ عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان کی بھی تعلیم وتربیت مردوں کی طرح ضروری ہے۔ ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بھی مردوں کی طرح عورتوں کا پڑھا لکھا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے بھی کہ بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے لیے عورت کا تعلیم وتربیت یافتہ ہونا ازحد ضروری ہے کیونکہ اگر بچوں کی تعلیم وتربیت اچھی نہیں ہو گی تو اگلی نسلوں کا اخلاق مزید بگڑ جائے گا اور اکثر معاشرہ لادینیت کا شکار ہو جائے گا۔ ایک عورت کو دین دار بنانا پورے گھرانے کو دین دار بنانے کے مترادف ہے۔ آج کے مادیت زدہ دور میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ عورتوں کو ضروری اور بنیادی تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ آج کے دور میں جس قدر عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اگر ان کے اجتماع میں خطاب کیا جائے گا تو لامحالہ تمام عورتوں کو آواز سنانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی بھی ضرورت ہو گی۔ جب عورتوں کے کسی بڑے اجتماع میں لاؤڈ اسپیکر پر عورتیں درس وتدریس کریں گی تو آواز باہر جانے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب عورتیں، عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ٹی وی پروگرام، یوٹیوب چینل، اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر دین اسلام کی تعلیمات بیان کریں گی تو ان کی آواز غیر محرم بھی سن سکتا ہے۔ اگر اس طرح پڑھی لکھی دین دار عورتوں کی آواز کو پردہ قرار دے کر اور انہیں دین اسلام کی ترویج واشاعت بذریعہ جدید ذرائع سے روک دیا جائے تو ان کی جگہ وہ عورتیں دین اسلام کو غلط انداز میں پیش کریں گی جن کا دینی تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر وہ اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے قرآن وحدیث اور سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے مثالیں دینے کی بجائے مغربی معاشروں کی مثالیں پیش کریں گی کیونکہ جو خلاء دین دار لوگ چھوڑیں گے، اسے بے دین اور سیکولر لوگ پُر کریں گے۔ اور ہماری نسلیں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ کو نمونہ حیات بنانے کی بجائے مغربی روایات کو اپنے لیے رول ماڈل سمجھیں گی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ غیرمنصوص مسئلہ پر قطعی نصوص والا حکم لاگو کر کے حرام قرار دینے سے اجتناب کیا جائے۔ بلا دلیل عورت کی آواز کا پردہ واجب قرار دینا اور دین اسلام کی اعلانیہ تبلیغ کرنے والی عورت کے عمل کو حرام کہنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ جو عورتیں محافل میلاد، تعلیمی وتربیتی کانفرنسز اور ٹی وی پروگرامز میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں اُنہیں کسی صورت منع کرنے کا کوئی عقلی اور نقلی جواز نہیں بنتا کیونکہ مردوں کی طرح شرعی حدود میں رہتے ہوئے عورتوں پر بھی تبلیغ دین واجب ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری