سوتیلے بہن بھائیوں سے حسنِ سلوک کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6168
السلام علیکم! میرے ابو نے پہلی شادی کی جس سے ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، میرے والد صاحب پھر ان سے علیحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد دوسری شادی ہوئی، میں دوسری شادی سے ہی پیدا ہوا ہوں۔ میرے ابو کی وفات ہو گی، اب میری وہ سوتیلی بہنیں مجھ سے رابطہ کر رہی ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کر دیں کہ ان کے مجھ پر کیا حقوق ہیں؟ کیا ان سے حسنِ سلوک مجھ پر لازم ہے؟

  • سائل: حمادمقام: ماموں کانجن
  • تاریخ اشاعت: 16 فروری 2023ء

زمرہ: رشتہ داروں کے حقوق

جواب:

دینِ اسلام نے صلۂ رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیا ہے اور اس سلسلے میں سگے اور سوتیلے کی کوئی تفریق نہیں کی بلکہ کسی بھی نسبت سے بننے والے رشتوں کو نبھانے اور ان سے اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ؕ

النِّسَآء، 4: 36

’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)۔‘

یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے فوراً بعد رشتہ داروں سے بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق و فرائض کے معاملے میں والدین کے بعد سب سے زیادہ حق بہن بھائیوں کا ہے۔ بہنوں اور بیٹیوں سے حسنِ سلوک کے بارے میں تو رسول اللہ ﷺ نے خصوصی تاکید فرمائی اور اس کا اجر بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ فَلَهُ الجَنَّةُ.

أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب: الأدب، باب: في فضل من عال يتيما، 4: 338، الرقم: 5147

’جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، اُنہیں اچھا ادب سکھایا، اُن کی شادی کی اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تین بہنیں یا تین بیٹیاں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں۔‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے بھی سوتیلے بہن بھائیوں سے محبت اور حسنِ سلوک کا درس دیا ہے۔ آپ ﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیماء رضی اللہ عنہا جب ایک جنگ میں گرفتار ہو کر بارگاہِ نبوت میں لائی گئیں تو آپ ﷺ نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ ﷺ کی آنکھیں نَم ہوگئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر اُن کو بٹھایا، پھر کچھ اونٹ اور کچھ بکریاں دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو، تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچادوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو بہت عزت و احترام کے ساتھ ان کو اُن کے قبیلے میں پہنچا دیا گیا۔ (المواھب اللدنیۃ)

سوتیلے بہن بھائیوں اور بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی سوتیلی اولاد تھی، انہوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: یَارسولَ اللہ! اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر جو گویا میرے ہی بچے ہیں خرچ کروں تو کیا مجھے ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَنَفِقِي عَلَيْهِمْ فَلَكِ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِم.

مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث: 1933

’ان پر خرچ کرو، تم ان پر جو خرچ کرو گی تو اس پر تمہیں اجر وثواب ملے گا۔‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں صلۂ رحمی کو صرف سگے رشتوں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ ہر طرح کے رشتے داروں سے حسنِ سلوک، احسان اور صلہ رحمی کو باعثِ ثواب قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے سائل کی سوتیلی بہنیں اس کے حسنِ سلوک کی مستحق ہیں، اس لیے سائل ان کی خبرگیری رکھیں، غم و خوشی کے موقع پر ان کی طرف جائیں، جب دعوت دیں تو ان کی دعوت قبول کریں، بیمار ہوں تو تیمار داری کریں، مشورہ طلب کریں تو انہیں صحیح مشورہ دیں، ان کی عدم موجودگی میں ان کے حقوق کی حفاظت کریں، ن کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اسی طرح جو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے دوسروں کے لیے بھی اچھا مت سمجھیں۔ ان تمام امور سے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔