جواب:
ایسا شوہر جو نامرد، خصی یا کسی بھی وجہ سے حق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو اسے عنین کہتے ہیں۔ احناف کے نزدیک ایسے شخص اگر اپنی بیوی خلوت صحیحہ (میاں بیوی کی تنہائی کی ملاقات کہ جہاں جسمانی تعلق قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو) ثابت ہوجائے تو طلاق، خلع یا تنسیخ نکاح کی صورت میں بیوی پر عدت پوری کرنا واجب ہو گا اور حق مہر بھی مکمل ادا کیا جائے گا۔ جیسا کہ سلیمان بن احمد طبرانی (المتوفی: 360ھ) نے ایک روایت بیان کی ہے جس کو نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی (المتوفی: 807ھ) نے بھی نقل کیا ہے:
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يُؤَجَّلُ الْعِنِّينُ سَنَةً، فَإِنْ وَصَلَ إِلَيْهَا وَإِلَّا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَلَهَا الصَّدَاقُ.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نامرد آدمی کو ایک سال کی مہلت دی جائے، اگر وطی کے قابل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کر دی جائے اور بیوی کے لیے مہر ہو گا۔‘‘
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کر کے اس کا حکم بھی بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ خَلَا حُصَيْنِ بْنِ قَبِيصَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
امام دارقطنی (المتوفی: 385ھ) اور امام بیہقی (المتوفی: 458ھ) نے میاں بیوی کی تنہائی کی ملاقات کہ جس میں پردہ گرا لیا جائے، کی صورت میں بھی مہر لازم ہونے کے بارے میں مرفوع حدیث نقل کی ہے:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: مَنْ كَشَفَ خِمَارَ امْرَأَةٍ وَنَظَرَ إِلَيْهَا فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا.
’’محمد بن عبد الرحمٰن بن ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنی بیوی کا گھونگھٹ کھول کر اُسے دیکھ لیا، اُس شخص پر حق مہر ادا کرنا لازم ہو گیا خواہ اُس نے بیوی کے ساتھ صحبت کی ہو یا صحبت نہ کی ہو۔‘‘
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک اور روایت نقل کی ہے:
عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، أَنَّ عُمَرَ، وَعَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَا: إِذَا أَغْلَقَ بَابًا وَأَرْخَى سِتْرًا فَلَهَا الصَّدَاقُ كَامِلًا وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ.
’’حضرت احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب دروازہ بند کر لیا جائے اور پردہ لٹکا دیا جائے تو مہر مکمل ادا کرنا ہو گا اور بیوی پر عدت بھی ہے۔‘‘
البيهقي، السنن الكبرى، 7: 255، الرقم: 14257
حضرت سعید بن منصور (المتوفی: 227ھ) نے بھی ایک روایت نقل کی ہے:
عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِذَا لَمْ يَصِلْ إِلَيْهَا أُجِّلَ أَجَلًا سَنَةً، وَرُفِعَ إِلَى السُّلْطَانِ، فَإِنْ وَصَلَ إِلَيْهَا، وَإِلَّا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَلَهَا الصَّدَاقُ كَامِلًا، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ.
’’حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کیا کرتے تھے: جب کوئی شخص اپنی بیوی سے وطی نہ کر پائے اسے ایک سال کی مہلت دی جائے، اور اسے حاکم کے پاس لے جایا جائے، اگر وطی کے قابل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کر دی جائے اور عورت کے لیے مکمل حق مہر ہو گا اور اس پر عدت بھی ہو گی۔‘‘
سعيد بن منصور، السنن، كتاب الطلاق، باب ما جاء فى العنين، 2: 80، الرقم: 2017، الهند: الدار السلفية
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی (المتوفی: ۹70 ھ) فرماتے ہیں:
وَلَوْ مَجْبُوبًا أو عِنِّينًا أو خَصِيًّا أَيْ الْخَلْوَةُ بِلَا الْمَوَانِعِ الْمَذْكُورَةِ كَالْوَطْءِ وَلَوْ كان الزَّوْجُ مَجْبُوبًا أو نَحْوَهُ فَلَهَا كَمَالُ الْمَهْرِ بَعْدَ الطَّلَاقِ وَالْخَلْوَةِ عِنْدَ أبي حَنِيفَةَ.
’’اور اگر کوئی شخص مجبوب، نامرد اور خصی ہو تو یہ (نقائص) خلوت کے مانع نہیں ہیں بلکہ یہ وطی کی طرح ہے۔ اور اگر شوہر مجبوب ہو یا اسی طرح کا کوئی اور مسئلہ ہو تو طلاق یا خلوت کے بعد عورت کے لیے پورا حق مہر ہے۔‘‘
ابن نجيم، البحر الرائق، 3: 166، بيروت: دار المعرفة
صاحبانِ فتاوی ہندیہ فرماتے ہیں:
وَخَلْوَةُ الْمَجْبُوبِ خَلْوَةٌ صَحِيحَةٌ عِنْدَ أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَخَلْوَةُ الْعِنِّينِ وَالْخَصِيِّ خَلْوَةٌ صَحِيحَةٌ كَذَا في الذَّخِيرَةِ.
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجبوب کی خلوت، خلوت صحیحہ ہے اور نامرد اور خصی کی خلوت بھی خلوۃ صحیحہ ہے جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔‘‘
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 305، بيروت: دار الفكر
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق چونکہ خلوت صحیحہ ثابت ہو چکی ہے، لہٰذا طلا ق یا تنسیخ نکاح کی صورت میں لڑکی کو مکمل حق مہر ملے گا اور اس پر عدت پوری کرنا بھی واجب ہو گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔