جواب:
سائل نے چونکہ اپنے سوال میں واضح نہیں کیا کہ جب اس نے اپنا ایک قطعۂ زمین مدرسہ کو وقف کرنے کیلئے ہبہ کی پیشکش کی تو کیا مدرسہ کی انتظامیہ نے اس پیشکش کو قبول کیا یا نہیں؟ اس بات کی وضاحت اس لیے درکار ہے کیونکہ ہر دو صورت کا حکم الگ الگ ہے۔ بہرحال یہاں دونوں صورتیں بیان کی جا رہی ہیں، سائل دیکھے کہ ان میں سے کونسی صورت بنتی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔
1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ سائل نے کوئی قطعۂ زمین مدرسہ کو ہبہ کرنے کی پیشکش کی اور مدرسہ کی انتظامیہ نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے مذکورہ قطعۂ زمین کو اپنے انتظام میں لے لیا ہے، تو اس صورت میں ہبہ کے تینوں ارکان یعنی ایجاب، قبول اور قبضہ ثابت قرار پائیں گے اور مذکورہ قطعۂ زمین مدرسہ کی ملکیت سمجھا جائے گا۔ اب سائل کیلئے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہبہ کر کے واپس لینے کی مذمت کی ہے اور اسے ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ، كَالْكَلْبِ يَقِيءُ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ.
’’اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے، پھر اسے کھا لیتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ صحیح مسلم سے لیے گئے ہیں۔ اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے:
لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ.
’’ہم مسلمانوں کی شان بری مثالوں کو اپنانا نہیں ہے۔‘‘
ہبہ منعقد ہونے کی صورت میں اگر زمین کو مقاصدِ مدرسہ کیلئے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے تو اس کو فروخت کر کے یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ زمین کا تبادلہ کر کے مدرسہ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ نے سائل کا ہبہ قبول ہی نہیں کیا تو ہبہ منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ موہوب لہٗ نے واہب کی کو قبول ہی نہیں کیا۔ اگر مدرسہ کی انتظامیہ نے واھب کی پیشکش کو قبول کیا اور نہ قبضہ کیا تو ہبہ کا معاملہ منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس صورت میں مذکورہ قطعۂ زمین سائل کی ملکیت میں ہی ہے، وہ اسے جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے یا بیچنا چاہے تو بیچ سکتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔