اگر وقف کیلئے معاملہ ہبہ منعقد نہ ہو پائے تو وقف کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6153
السلام علیکم مفتی صاحب! ہمارے گھر کے پاس دینی مدرسہ ہے، وہ جس زمین میں زیر تعمیر ہے وہ زمین ساری زمین ایک ہی مالک کی ہے، مدرسہ زمین کے آدھے یا تیسرے حصے تک تعمیر ہے، بقایا زمین مالک کے استعمال میں ہے۔ اب زمین کا آخری حصہ یا تیسرا یا چوتھا حصہ جس کے طرف اپنا ذاتی راستہ کوئی نہیں ہے۔ زمین کی لمبائی شمالاً جنوباً ہے، شمال کی طرف مدرسہ، درمیانی حصہ مالک کے پاس اور آخری حصہ میرا ہے۔ میں نے اس ما لک کے ساتھ اپنی زمین کا تبادلہ کیا، اب میں نے اپنی زمین کا حصہ مدرسہ کیلیے وقف کردیا۔ جس دن نشاندہی کیلیے چونا ڈال رھا تھا امام صاحب کے ساتھ کہ یہاں ہم وقتی مدرسہ کیلے کواٹر بنا لیتے ہیں اس دوران اس زمین کے قریب گھر والا آیا کہ یہاں مدرسہ کیلے کچھ بھی تعمیر نہیں کرسکتے ہو ۔ مختصر یہ بات قتل و غارت اور فساد کی طرف بڑھ رہی تھی اس دوران مولنا صاحب یعنی امام مدرسہ کا کہنا تھا کہ آپ اپنی زمین خود استعمال کر سکتے ہو اگر اس کو بیچنا چاہتے ہو تو بیج سکتے ہو ۔ اب کیا یہ زمین ہم بیج سکتے ہیں؟یا اس کا تبادلہ کرسکتے ہیں؟

  • سائل: سلطان محمودمقام: کوہاٹ
  • تاریخ اشاعت: 19 اکتوبر 2023ء

زمرہ: وقف کے احکام و مسائل  |  ہبہ/ ہدیہ

جواب:

سائل نے چونکہ اپنے سوال میں واضح نہیں کیا کہ جب اس نے اپنا ایک قطعۂ زمین مدرسہ کو وقف کرنے کیلئے ہبہ کی پیشکش کی تو کیا مدرسہ کی انتظامیہ نے اس پیشکش کو قبول کیا یا نہیں؟ اس بات کی وضاحت اس لیے درکار ہے کیونکہ ہر دو صورت کا حکم الگ الگ ہے۔ بہرحال یہاں دونوں صورتیں بیان کی جا رہی ہیں، سائل دیکھے کہ ان میں سے کونسی صورت بنتی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔

1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ سائل نے کوئی قطعۂ زمین مدرسہ کو ہبہ کرنے کی پیشکش کی اور مدرسہ کی انتظامیہ نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے مذکورہ قطعۂ زمین کو اپنے انتظام میں لے لیا ہے، تو اس صورت میں ہبہ کے تینوں ارکان یعنی ایجاب، قبول اور قبضہ ثابت قرار پائیں گے اور مذکورہ قطعۂ زمین مدرسہ کی ملکیت سمجھا جائے گا۔ اب سائل کیلئے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہبہ کر کے واپس لینے کی مذمت کی ہے اور اسے ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَلْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ، كَالْكَلْبِ يَقِيءُ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ.

’’اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے، پھر اسے کھا لیتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ صحیح مسلم سے لیے گئے ہیں۔ اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے:

لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ.

’’ہم مسلمانوں کی شان بری مثالوں کو اپنانا نہیں ہے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الهبة وفضلها، باب هبة الرجل لامرأته والمرأة لزوجها، ج/2، ص/915، الرقم/2449- باب في الهبة والشفعة، ج/6، ص/2558، الرقم/6574، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الهبات، باب تحريم الرجوع في الصدقة والهبة بعد القبض إلا ما وهبه لولده وإن سفل، ج/3، ص/1241، الرقم/1622، بیروت: دار احیاء التراث العربي

ہبہ منعقد ہونے کی صورت میں اگر زمین کو مقاصدِ مدرسہ کیلئے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے تو اس کو فروخت کر کے یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ زمین کا تبادلہ کر کے مدرسہ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

2۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ نے سائل کا ہبہ قبول ہی نہیں کیا تو ہبہ منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ موہوب لہٗ نے واہب کی کو قبول ہی نہیں کیا۔ اگر مدرسہ کی انتظامیہ نے واھب کی پیشکش کو قبول کیا اور نہ قبضہ کیا تو ہبہ کا معاملہ منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس صورت میں مذکورہ قطعۂ زمین سائل کی ملکیت میں ہی ہے، وہ اسے جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے یا بیچنا چاہے تو بیچ سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری