جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ جن لوگوں کا شجرۂ نسب حضرت علی ابن ابی طالب، حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت جعفر بن ابی طالب، حضرت عقیل بن ابی طالب اور حضرت حارث بن عبدالمطلب رضوان اللہ علیھم سے ملتا ہے وہ سادات ہیں اور ان پر زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔ ہاشمی، قریشی، عباسی بھی اسی حکم میں داخل ہیں۔ مگر اس حکم کے نفاذ کیلئے سلسلۂ نسب بسند ثابت ہونا ضروری ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ کوئی شخص مذکورہ میں سے کسی نسب سے متعلق ہے تو اسے زکوٰۃ و صدقات نہیں دیئے جائیں گے بلکہ اس کی مدد مالی ہدیے اور تحائف سے کی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سادات کیلئے زکوٰۃ لینا ناجائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ مالی حوالے سے کمزور سادات کیلئے ایسے فنڈز قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں زکوٰۃ کے علاوہ رقم جمع کی جائیں اور پھر نہایت رازداری کے ساتھ تنگ دست سادات کو دیئے جائیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا فنڈ قائم نہیں ہے تو اس صورت میں بعض علماء کرام نے گنجائش نکالی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اِن علماء دلیل یہ دی ہے کہ اسلام کے صدرِ اوّل میں چونکہ سادات کیلئے خُمس مختص تھا جس سے ان کی مالی اعانت ہوتی تھی، اس لیے سادات کیلئے زکوٰۃ و صدقات لینے کی ضرورت ہی نہ تھی، مگر دورِ حاضر میں بیت المال کا نظام باقی رہا ہے اور نہ مالِ غنیمت کی وہ صورتحال رہی ہے، اس لیے آج کے دور میں اگر اور کوئی ذریعۂ اعانت نہ ہو تو تنگدست سادات کی مدد زکوٰۃ کے پیسوں سے کی جاسکتی ہے۔ اس رائے کے مزید دلائل جاننے کیلئے ملاحظہ کیجیے: کیا دورِ حاضر میں غريب سادات کرام کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
2۔ مکان اصل قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن یعنی کرائے کو نصاب میں شامل کیا جائے گا یا پھر مکان فروخت کرنے کی صورت میں اس کی حاصل شدہ رقم کو باقی نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب ہے اور سال بھر صاحبِ نصاب رہا ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت مکان کے کرائے یا مکان فروخت کر دیا ہے تو اس سے حاصل شدہ قیمت کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم جب تک مکان فروخت نہیں ہوتا یا اس سے کرایہ نہیں آ رہا تو مکان کی ملکیت کو نصاب میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔