اگر مورث کی اولاد نہ ہو اور ورثاء میں صرف بھتیجے اور بہنیں ہوں تو وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟


سوال نمبر:6150
میری پھوپھی کا وصال ہوا ہے، ان کی اولاد نہیں ہے، ان کے شوہر کی پہلے ہی وفات ہوچکی ہے، ان کی جائیداد کس کو ملے گی؟ ان کا ایک ہی بھائی تھا جس سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، کیا اب یہی وارث ہیں؟ پھوپھو کی بہنیں بھی ہیں، کیا وہ اور ان کی اولاد بھی ورثاء میں شامل ہے؟

  • سائل: یاسمینمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 جولائی 2025ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

صورتِ مسئلہ کے مطابق مرحومہ کے کل قابلِ تقسیم ترکہ میں سے دو تہائی (2/3) حصہ مرحومہ کی بہنوں میں تقسیم کیا جائے گا اور باقی مال مرحومہ کے بھتیجے کو دیا جائے گا۔ اس صورت میں مرحومہ کی بھتیجی کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ کلالہ کی وراثت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌo

النساء، 4: 176

’’لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجیے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اللہ تمہارے لیے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اس طرح مرحومہ کی دو یا دو سے زیادہ جتنی بھی بہنیں ہیں، ان میں ترکہ سے دو تہائی حصہ تقسیم کر کے باقی مال مرحومہ کے بھتیجے کو ملے گا۔ اس صورت میں مرحومہ کی بھتیجی کو بطور وارث حصہ نہیں ملے گا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ميراث الولد من أبيه وأمه، 6: 2476، الرقم: 6351، دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر، 3: 1233، الرقم: 1615، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث

’’میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔‘‘

اس بناء پر، اگر ورثاء اپنی رضا مندی سے مرحومہ کی بھتیجی کو کچھ مال دینا چاہیں تو شرعاً یہ جائز ہے، تاہم وہ وراثت میں حصہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری