کیا یتیم پر ظلم دیکھ کر خاموش والد کو ناراض کرنا بیٹے کے لیے جائز ہے؟


سوال نمبر:6146
السلام علیکم! ہمارے گھر میں ایک یتیم بچہ زیر کفالت ہے جسکی عمر تقریبا 6 برس ہے اسکے والدین میں سے کوئی بھی حیات نہیں۔ اس لیے اسے ہم نے اپنے گھر میں رکھ لیا۔ہمارا خون نہ ہونے کی وجہ سے اس بچے کا زہنی رجحان ہم سے نہیں ملتا وہ اپنی مستی میں مگن رہتا ہے کم ہی بات چیت کرتا ہے۔ ایک روز میرے تایا کی بیٹیوں نے اس پر تشدد کیا اسکی اس بے رخی کی وجہ سے اسکو مارا پیٹا حتیٰ کہ اس کا گلا تک دبا دیا وہ کافی تکلیف دہ حالت میں تھا میں یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔میں نے اپنے والد سے انکی شکایت کی کہ انکی بھتیجیوں نے ایسا کیا تو والد صاحب نے میری بات پر غور ہی نہیں کی اور بات ہوا میں اڑا دی۔ اکثر گھریلو معاملات میں بھی وہ انہیں کی طرفداری کرتے ہیں ہم اگر حق پر بھی ہوں تو وہ انہی کی طرفداری کرتے ہیں، اسکے بعد مجھے کافی غصہ آیا کے یہ سب ظالم آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ میری اپنے والد صاحب کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی اور میں بہت سخت الفاظ استعمال کرگیا وہ اب مجھ سے ناراض ہیں۔ میں کیا کروں؟ شرعی راہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ

  • سائل: شاہ رخ نوازمقام: میاں چنوں
  • تاریخ اشاعت: 16 فروری 2023ء

زمرہ: والدین کے حقوق

جواب:

یتیم بچے سے بد سلوکی انتہائی غلط، غیر اخلاقی اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ اللہ تعالٰی نے بوسیلہ حضور اکرم ﷺ امت کو یتیم پر سختی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ .

الضحی، 9/93

سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo

ایک مقام پر اللہ تعالٰی نے یتیم سے بدسلوکی کرنے والے شخص کو دین جھٹلانے والا قرار دیا ہے۔

جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ. فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ.

الماعون، 1-2/ 107

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے۔

آپ کو بھی والد صاحب سے غصہ ہونے کی بجائے ان آیات کی روشنی میں بات کرنا چاہیے تھی۔

بہر حال اب بھی آپ کو والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کرنا چاہیے کیونکہ والدین کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کرنا منع ہے۔

اللہ تعالٰی نے والدین سے بات کرتے ہوئے اس قدر نرم رویہ اپنانے کا حکم فرمایا ہے کہ ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی ممانعت ہے۔

یعنی کوئی شخص اپنے والدین سے بات کرے تو وہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئے تو غصہ کرنے یا سخت الفاظ بولنے تو دور کی بات ہے ناگواری کا اظہار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

جیسا کہ درج ذیل آیات مبارکہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے

وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا. وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ.

الاسرا، 17/ 24-23

اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔

والدین کےساتھ جس طرح ان آیات مبارکہ میں حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بہت سے مقامات پر والدین سے حسنِ سلوک کی تعلیمات دی گئی ہیں۔

لہذا والدین سے اختلاف رائے رکھنے کا بھی احسن انداز ہونا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ نے حق بیانی کی اور ایک یتیم بچے کی طرفداری کی کہ اس کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ مگر آپ نے ایک طرف اچھا قدم اٹھایا دوسری طرف والد صاحب کو ناراض کر کے اللہ تعالٰی کی حکم عدولی کی ہے۔

یتیم بچے کو ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی تلقین آپ تمام گھر والوں کو ضرور کریں لیکن ساتھ ساتھ والد صاحب سے معافی مانگ کر انہیں بھی راضی کریں۔ اگر والد صاحب فی الحال معافی دینے پر آمادہ نہیں بھی ہوتے تو آپ ان کی خدمت کریں اور مسلسل ان سے معافی مانگتے رہیں۔ اللہ تعالٰی ضرور ان کے دل نرم فرمائے گا اور وہ آپ کو معاف بھی کر دیں گے۔ پہلے کئے کی اللہ تعالٰی سے توبہ طلب کریں اور آئندہ والدین سے انتہائی ادب و احترام اور شفقت سے پیش آئیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری