جواب:
یتیم بچے سے بد سلوکی انتہائی غلط، غیر اخلاقی اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ اللہ تعالٰی نے بوسیلہ حضور اکرم ﷺ امت کو یتیم پر سختی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ .
الضحی، 9/93سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo
ایک مقام پر اللہ تعالٰی نے یتیم سے بدسلوکی کرنے والے شخص کو دین جھٹلانے والا قرار دیا ہے۔
جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ. فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ.
الماعون، 1-2/ 107کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے۔
آپ کو بھی والد صاحب سے غصہ ہونے کی بجائے ان آیات کی روشنی میں بات کرنا چاہیے تھی۔
بہر حال اب بھی آپ کو والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کرنا چاہیے کیونکہ والدین کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کرنا منع ہے۔
اللہ تعالٰی نے والدین سے بات کرتے ہوئے اس قدر نرم رویہ اپنانے کا حکم فرمایا ہے کہ ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی ممانعت ہے۔
یعنی کوئی شخص اپنے والدین سے بات کرے تو وہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئے تو غصہ کرنے یا سخت الفاظ بولنے تو دور کی بات ہے ناگواری کا اظہار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
جیسا کہ درج ذیل آیات مبارکہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے
وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا. وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ.
الاسرا، 17/ 24-23اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
والدین کےساتھ جس طرح ان آیات مبارکہ میں حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بہت سے مقامات پر والدین سے حسنِ سلوک کی تعلیمات دی گئی ہیں۔
لہذا والدین سے اختلاف رائے رکھنے کا بھی احسن انداز ہونا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ نے حق بیانی کی اور ایک یتیم بچے کی طرفداری کی کہ اس کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ مگر آپ نے ایک طرف اچھا قدم اٹھایا دوسری طرف والد صاحب کو ناراض کر کے اللہ تعالٰی کی حکم عدولی کی ہے۔
یتیم بچے کو ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی تلقین آپ تمام گھر والوں کو ضرور کریں لیکن ساتھ ساتھ والد صاحب سے معافی مانگ کر انہیں بھی راضی کریں۔ اگر والد صاحب فی الحال معافی دینے پر آمادہ نہیں بھی ہوتے تو آپ ان کی خدمت کریں اور مسلسل ان سے معافی مانگتے رہیں۔ اللہ تعالٰی ضرور ان کے دل نرم فرمائے گا اور وہ آپ کو معاف بھی کر دیں گے۔ پہلے کئے کی اللہ تعالٰی سے توبہ طلب کریں اور آئندہ والدین سے انتہائی ادب و احترام اور شفقت سے پیش آئیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔