جواب:
مسافر کو بحالتِ سفر روزہ ترک کر دینا مباح ہے بشرطیکہ سفر اتنا لمبا ہو جس میں قصر واجب ہوتی ہے، اور اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو اس کا سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ آج کل کے دور میں ریل گاڑی، کار، ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر معتدل ہی ہوتا ہے لہٰذا جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے روزہ رکھنے میں کوئی دشواری بھی پیش نہ آتی ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ روزہ رکھے، اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO
البقرة، 2 :
’’(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہوo‘‘
اس سلسلے میں جمہور فقہاء کا موقف ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ماہِ رمضان میں جب سفر پر روانہ ہوتے تو ان میں سے کچھ روزہ دار ہوتے اور کچھ روزہ نہ رکھتے۔ روزے دار روزہ چھوڑنے والوں کو اور روزہ چھوڑنے والا روزے دار کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا تھا جیسا کہ حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ. قَدْ صَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِی السَّفَرِ، وَأَفْطَرَ.
مسلم، الصحيح،کتاب الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافر، 2 : 785، رقم : 1113
’’(حالتِ سفر میں) صائم (روزہ دار) اور مفطر (روزہ نہ رکھنے والے) کو برا بھلا مت کہو کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی سفر میں روزہ رکھا اور کبھی نہیں بھی رکھا۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔