جواب:
حرام کا لغوی معنی ممنوع، ناجائز اور روک دیا جانا ہے، ایسا فعل جس سے روکنا مقصود ہوتا ہے اس کو حرام کہا جاتا ہے۔
إبراهیم مصطفی، المعجم الوسیط، 1: 169
امام غزالی نے حرام کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
اَلْحَرَامُ هُوَ الْمَقُوْلُ فِيْهِ: أُتْرُكُوْهُ وَلَا تَفْعَلُوْهُ.
غزالی، المستصفی، 1: 45
حرام وہ شے یا فعل ہے جس کے بارے میں ترک کر دینے اور نہ کرنے کا صریح حکم آیا ہو۔
شیخ وھبہ زحیلی نے حرام کی تعریف اس طرح کی ہے:
اَلْحَرَامُ مَا طَلَبَ الشَّارِعُ تَرْكَهُ عَلَی وَجْهِ الْحَتْمِ وَالْإِلْزَامِ.
وهبة الزحیلی، أصول الفقه، 1: 80
حرام وہ فعل ہے جس کو شارع نے حتمی اور لازمی طور پر ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہو۔
شریعت میں حرام اشیاء کو صرف ان کے مَفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے، یہ فساد یا تو فعل کی ذات میں ہوتا ہے یا کسی خارجی امر کے ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر حرام کی دو اقسام ہیں:
حرام لذاتہٖ وہ حرام ہے، جسے شارع نے اس کے ذاتی ضرر اور مفاسد کی وجہ سے حرام کیا ہے۔ ایسے ضرر اور مفاسد جو کسی حال میں بھی اس سے جدا نہ ہوتے ہوں۔ مثلاً زنا، چوری، قتل، شراب نوشی اور ایسے ہی دوسرے اُمور جو ذاتی طور پر حرام ہیں کیونکہ ان کے مفاسد ہمیشہ برقرار رہتے ہیں، کبھی مرتفع، معطل یا معدوم نہیں ہوتے۔
حرام لغیرہ وہ حرام ہے، جو اپنی اصل ذات کے اعتبار سے مشروع ہو، کیوں کہ اس میں کوئی ضرر اور فساد نہیں ہوتا ہے، یا اس کی منفعت غالب ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز مل گئی ہو، جو اس کے حرام ہونے کا تقاضا کرے۔
مثلاً غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا، جمعہ کی اذان کے بعد بیع کرنا، عیدین کے دن روزے رکھنا، حرام ہیں، مگر اپنی اصل کے اعتبار سے حرام نہیں، بلکہ نماز، بیع اور روزہ اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع اعمال ہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، مگر بالترتیب مغصوبہ زمین، اذان ہو جانے اور عیدین کے ایام کی وجہ سے حرام ہو گئے ہیں۔ اس لیے اس حرمت کو ’حرمت لغیرہ‘ اور عمل کو ’حرام لغیرہ‘ کہا جائے گا کیونکہ کسی اور خارجی سبب نے فی نفسہ کسی جائز عمل کو حرام بنا دیا۔ لہٰذا یہ ’حرمت مؤقت اور عارضی‘ ہوتی ہے۔
حرام کے ثبوت کے درج ذیل پانچ (5) ذرائع ہیں:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ أُمَّهَٰتُكُمۡ وَبَنَاتُكُمۡ وَأَخَوَٰتُكُمۡ وَعَمَّٰتُكُمۡ وَخَٰلَٰتُكُمۡ وَبَنَاتُ ٱلۡأَخِ وَبَنَاتُ ٱلۡأُخۡتِ وَأُمَّهَٰتُكُمُ ٱلَّٰتِيٓ أَرۡضَعۡنَكُمۡ وَأَخَوَٰتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَٰعَةِ وَأُمَّهَٰتُ نِسَآئِكُمۡ وَرَبَٰٓئِبُكُمُ ٱلَّٰتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ ٱلَّٰتِي دَخَلۡتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمۡ تَكُونُواْ دَخَلۡتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ وَحَلَٰٓئِلُ أَبۡنَآئِكُمُ ٱلَّذِينَ مِنۡ أَصۡلَٰبِكُمۡ وَأَن تَجۡمَعُواْ بَيۡنَ ٱلۡأُخۡتَيۡنِ إِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورٗا رَّحِيمٗا.
النسا، 4: 23
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں، جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو، تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
حُرِّمَتْ (حرام کر دی گئی ہیں) کا لفظ آیت میں مذکورہ عورتوں کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُ.
البقرة، 2: 230
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے۔
اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں ہے:
لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِیءٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 72، رقم: 20714، بیهقی، السنن الكبریٰ، 6: 100، رقم: 11325
ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
مندرجہ بالا نصوص میں فَلَاتَحِلُّ اور لَایَحِلُّ کے الفاظ حلال ہونے کی نفی کر رہے ہیں۔ اس لیے تیسری طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے بیوی حرام ہے اور کسی مسلمان کی مرضی کے بغیر اس کا مال کھانا بھی حرام ہے۔
ایسا صیغۂ نہی جو ایسے قرینہ سے خالی ہو، جو اس کو حرمت سے پھیر دے۔
وَ لَاتَقۡتُلُوٓاْ أَوۡلَٰدَكُمۡ خَشۡيَةَ إِمۡلَٰقٖ.
بنی إسرائیل، 17: 31
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو۔
یہاں لَاتَقْتَلُوْا (قتل مت کرو) یہ صیغۂ نہی ہے، جس سے فعل کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَٱجۡتَنِبُواْ ٱلرِّجۡسَ مِنَ ٱلۡأَوۡثَٰنِ وَٱجۡتَنِبُواْ قَوۡلَ ٱلزُّورِ.
الحج، 22: 30
سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔
اس آیت میں فَاجْتَنِبُوْا (پس تم پرہیز کرو) کے لفظ سے بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔
جس پر دنیوی یا اخروی سزا کا بیان ہو، وہ حرام ہے مثلاً
وَٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَأۡتُواْ بِأَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجۡلِدُوهُمۡ ثَمَٰنِينَ جَلۡدَةٗ.
النور، 24: 4
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں، تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اَسّی (80) کوڑے لگاؤ۔
اسی طرح ارشاد ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأۡكُلُونَ أَمۡوَٰلَ ٱلۡيَتَٰمَىٰ ظُلۡمًا إِنَّمَا يَأۡكُلُونَ فِي بُطُونِهِمۡ نَارٗاۖ وَسَيَصۡلَوۡنَ سَعِيراً.
النساء، 4: 10
بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں (صرف) آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔
مذکورہ بالا آیات میں چونکہ جھوٹی تہمت لگانے پر اَسی (80) کوڑے مارنے کا حکم ہے، جو کہ دنیوی سزا ہے اور یتیموں کے مال کھانے والوں کے لیے جہنم کی آگ کی وعید ہے، جو کہ اُخروی سزا ہے۔ چونکہ ان دونوں اَفعال پر سزا کا بیان ہے، اس لیے یہ اور اس قسم کے باقی اَفعال حرام ہوں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔