جواب:
جب بھی کوئی کاروبار شروع کیا جائے تو اسے شرعی اصولوں کے مطابق ترتیب دینا اور اس کی شرائط و ضوابط کو لکھنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق انہی دو وجوہات سے ہوتا ہے کہ یا تو کاروبار غیرشرعی اصولوں پر بنا ہوتا ہے یا پھر اس کی بنیاد زبانی کلامی وعدہ و وعید پر ہوتی ہے اور کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا۔ یہی صورتحال مسئلۂ مسؤلہ میں بھی ہے کہ کاروبار کی نوعیت ہی طے نہیں کہ کاروبار مشارکہ کی بنیاد پر ہے یا مضاربہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، نہ ہی کوئی معاہدہ تحریری شکل میں ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاكْتُبُوْهُ ؕ
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔
اور اسی آیتِ مبارکہ کے اگلے حصے میں مزید ہدایات دیں کہ:
اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤی اَجَلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤی اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
القرآن، الْبَقَرَة، 2 : 282
اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اللہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اللہ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں قرض اور اس کے علاوہ لین دین اور تجارت کے معاملات خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں تمام کو لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ جو سوالنامہ ہمارے سامنے ہے اس میں سائل خود اقرار کر رہا ہے کہ ان کے معاملات کا کوئی تحریر ثبوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لین دین کا معاملہ بگڑنے کا اندیشہ ہے اگر فریقین صبر و تحمل سے مل بیٹھ کر اس مسئلے کو نہیں سلجھائیں گے تو معاملات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فریقین مناسب طریقے سے کسی کی حق تلفی کیے بغیر اس معاملے کو ختم کریں اور آئندہ کیلئے نیا معاہدہ کریں جس میں شرعی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھیں تاکہ کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو اور بعد میں ہونے والی بدمزگی سے بھی بچا جاسکے۔
مسئلہ مسؤلہ کی صورتحال کے مطابق سرمایہ کار کی اولاد کا دکاندار کی جائیداد پر قبضہ کرنا جائز نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ پہلے سے طے شدہ معاہدہ کے مطابق لین دین ختم کریں۔ اگر سرمایہ کار کا داماد معاہدہ کے مطابق تمام نفع وصول کر چکا ہے تو پھر اس کی اولاد کو حق نہیں ہے کہ وہ دکان دار سے زیادتی کریں۔ اگر انہوں نے ظلم و زیادتی کی تو اس کا وبال ان پر ہوگا، ان کے والد پر نہیں۔
لہٰذا دکاندار معاہدہ کے علاوہ انہیں ماہانہ رقم دینے کا پابند نہیں ہے۔ اگر انہوں نے دکاندار کو مجبور کر رکے ماہانہ رقم وصول کی تو یہ ان کی ظلم و زیادتی اور مالِ ناحق کھانے کے مترادف ہوگا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَی الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠
القرآن، الْبَقَرَة، 2 : 188
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
القرآن، النِّسَآء، 4 : 29
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
اس لیے سرمایہ کار کی اولاد کو اس مالِ ناحق سے بچنا چاہیے۔ سرمایہ کار کی اولاد کے بقول ان کے والد نے نصیحت کی تھی، اگر کی بھی تھی تو یہ وصیت بےبنیاد ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ دکاندار معاہدہ کے مطابق سرمایہ کار کے داماد کو منافع دے رہا ہے۔ اس لیے سرمایہ کار کی اولاد جو بھی اضافی مال کا مطالبہ کرے گی وہ باطل ہے۔ اس کو سود نہیں بلکہ باطل مطالبہ کہیں گے۔ اس لیے سابقہ معاہدے کے مطابق سابقہ لین دین ختم کریں اور اگر مزید شراکت چاہیں تو نیا معاہدہ کرلیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔