جواب:
میت کی تجہیزوتکفین، قرض کی ادائیگی اور وصیت اگر ہو تو ایک تہائی سے پوری کرنے کے بعد جو باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ صورتِ مسئلہ کے مطابق مرحوم کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک سگی بہن، بھتیجے اور بھتیجیاں شامل ہیں۔ مرحوم کے ترکہ سے بیوہ، بہن اور بھتیجوں کو حصہ ملے گا جب کہ بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ ورثاء کے حصوں کی تفصیل بالترتیب درج ذیل ہے:
1۔ مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ میں سے بیوہ کو چوتھا (1/4) حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
النساء، 4: 12
’’اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘
2۔ مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے ہی اس کی بہن کو آدھا (1/2) حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَ لَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ.
النساء، 4: 176
’’لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجیے کہ اﷲ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے۔‘‘
3۔ مرحوم کی بیوہ اور بہن کو ان کے مقررہ حصے دے کر باقی مال بھتیجوں کو بطورِ عصہ ملے گا۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.
’’میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔‘‘
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو چوتھا حصہ دیا جائے گا، بہن کوآدھا حصہ دیں گے اور باقی سب مال بھتیجوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔